دوستو ،
میں اپنے تعارف میں عرض کر چکا ہوں کہ میری زندگی کا مختصر عرصہ تعلیم و تدریس کے شعبے میں گزرا ہے۔ اگرچہ اب میں کسی تعلیمی ادارے سے متعلق نہیں ہوں لیکن اس سے میری وابستگی بہر طور ابھی تک قائم ہے۔
اس دھاگے میں جو میں لکھنے جا رہا ہوں وہ مزاح تو ہے ہی لیکن ہمارے لئیے فکر اور سوچ کے در بھی وا کرتا ہے۔ ہم جو ہر بات میں ، انفرادی اور اجتماعی طور پر ، اپنے آپ کو عقلِ کُل اور ہر فن مولا سمجھنے کی لت کا شکار ہو چکے ہیں ؛ ذیل کی تحریر ہماری لا تعداد خامیوں اور غفلت کا سرِ عام پردہ چاک کرتی نظر آتی ہے کہ کس طرح سے ہم اپنی نئی نسل کی تربیت سے غافل ہیں۔ سائینسی اور فنی علوم تو دُور کی بات ہم ان کو اپنی زبان میں اظہارِ تمنا کا ڈھنگ بھی نہیں سکھا سکے۔ یہ تحریر خاص طور پر اساتذہ کرام کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔
یہ ایک درخواست ہے جو کہ دسویں جماعت کے ایک طالبعلم نے دسمبر ٹیسٹ ( نوماہی امتحان) میں لکھی تھی۔ اور جب میں نے اس پیپر مارک کئیے تو نہ صرف یہ بلکہ اسی قسم کے لطیفوں سے پُر 13 مزید پرچے بھی میں نے الگ کر کے اپنے "صاحب" کی میز پر رکھ دئیے۔ یاد رہے کہ اس جماعت میں طالب علموں کی تعداد صرف 24 تھی اور تدریس کے بہتر نتائج کے حصول کے حوالے سے طلباء کی یہ تعداد بے حد معقول تھی۔
(درخواست میں املاء کی غلطیوں کی درستگی میں نے خود کی ہے ورنہ ڈر تھا کہ اصل تحریر پڑھنا آپ کے لئیے مشکل ہو جاتا۔)
لیجئیے صاحب ، تحریر پڑھئیے جس کا عنوان ہے؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستو ، اس درخواست سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ دسمبر کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد دوسرے ہی دن ، گھر سے سکول آتے ہوئے ، ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب کا سچ مچ موٹر سائیکل پر ایک گدھی سے تصادم ہو گیا اور ان کی ایک ہڈی ٹوٹ گئی۔
یہ مزے دار روداد اگلی نشست تک اٹھا رکھتا ہوں۔
میں اپنے تعارف میں عرض کر چکا ہوں کہ میری زندگی کا مختصر عرصہ تعلیم و تدریس کے شعبے میں گزرا ہے۔ اگرچہ اب میں کسی تعلیمی ادارے سے متعلق نہیں ہوں لیکن اس سے میری وابستگی بہر طور ابھی تک قائم ہے۔
اس دھاگے میں جو میں لکھنے جا رہا ہوں وہ مزاح تو ہے ہی لیکن ہمارے لئیے فکر اور سوچ کے در بھی وا کرتا ہے۔ ہم جو ہر بات میں ، انفرادی اور اجتماعی طور پر ، اپنے آپ کو عقلِ کُل اور ہر فن مولا سمجھنے کی لت کا شکار ہو چکے ہیں ؛ ذیل کی تحریر ہماری لا تعداد خامیوں اور غفلت کا سرِ عام پردہ چاک کرتی نظر آتی ہے کہ کس طرح سے ہم اپنی نئی نسل کی تربیت سے غافل ہیں۔ سائینسی اور فنی علوم تو دُور کی بات ہم ان کو اپنی زبان میں اظہارِ تمنا کا ڈھنگ بھی نہیں سکھا سکے۔ یہ تحریر خاص طور پر اساتذہ کرام کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔
یہ ایک درخواست ہے جو کہ دسویں جماعت کے ایک طالبعلم نے دسمبر ٹیسٹ ( نوماہی امتحان) میں لکھی تھی۔ اور جب میں نے اس پیپر مارک کئیے تو نہ صرف یہ بلکہ اسی قسم کے لطیفوں سے پُر 13 مزید پرچے بھی میں نے الگ کر کے اپنے "صاحب" کی میز پر رکھ دئیے۔ یاد رہے کہ اس جماعت میں طالب علموں کی تعداد صرف 24 تھی اور تدریس کے بہتر نتائج کے حصول کے حوالے سے طلباء کی یہ تعداد بے حد معقول تھی۔
(درخواست میں املاء کی غلطیوں کی درستگی میں نے خود کی ہے ورنہ ڈر تھا کہ اصل تحریر پڑھنا آپ کے لئیے مشکل ہو جاتا۔)
لیجئیے صاحب ، تحریر پڑھئیے جس کا عنوان ہے؛
درخواست برائے معافی فیس
بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر صاحب ، گورنمنٹ ہائی سکول -------۔
ج۔۔۔۔۔۔ناب ع۔۔۔۔۔۔الی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب اپنی موٹر سائیکل پر سوار گھر سے سکول آ رہے تھے ۔ سخت سردی کا موسم تھا اور وہ نہر کے کنارے کنارے موٹر سائیکل کو بڑی احتیاط سے چلا رہے تھے کہ اچانک ہی ایک گدھی (موصوف نے کھوتی تحریر کیا تھا) سے ان کی ٹکر ہو گئی۔ وہ اپنی موٹر سائیکل پر قابو نہ رکھ سکے اور قلابازیاں کھاتے ہوئے نہر میں جا گرے۔ نہر کے ٹھنڈے پانی میں گرتے ہی وہ بے ہوش ہو گئے۔ ان کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ ہم نے ان کو نہر سے نکال کر چارپائی پر لٹایا تو معلوم ہوا کہ ان کی ٹانگ کی ہڈی دو جگہ سے ٹوٹ چکی ہے۔
ہم نے ان کو جلدی سے ہسپتال پہنچایا ، اس لئیے میری سکول فیس معاف کی جائے
ج۔۔۔۔۔۔ناب ع۔۔۔۔۔۔الی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب اپنی موٹر سائیکل پر سوار گھر سے سکول آ رہے تھے ۔ سخت سردی کا موسم تھا اور وہ نہر کے کنارے کنارے موٹر سائیکل کو بڑی احتیاط سے چلا رہے تھے کہ اچانک ہی ایک گدھی (موصوف نے کھوتی تحریر کیا تھا) سے ان کی ٹکر ہو گئی۔ وہ اپنی موٹر سائیکل پر قابو نہ رکھ سکے اور قلابازیاں کھاتے ہوئے نہر میں جا گرے۔ نہر کے ٹھنڈے پانی میں گرتے ہی وہ بے ہوش ہو گئے۔ ان کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ ہم نے ان کو نہر سے نکال کر چارپائی پر لٹایا تو معلوم ہوا کہ ان کی ٹانگ کی ہڈی دو جگہ سے ٹوٹ چکی ہے۔
ہم نے ان کو جلدی سے ہسپتال پہنچایا ، اس لئیے میری سکول فیس معاف کی جائے
آپکی عین نوازش ہو گی۔
الع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارض۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ں
محمد محسن ولد---------- -------- متعلم جماعت دہم
گورنمنٹ ہائی سکول ----۔
محمد محسن ولد---------- -------- متعلم جماعت دہم
گورنمنٹ ہائی سکول ----۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستو ، اس درخواست سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ دسمبر کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد دوسرے ہی دن ، گھر سے سکول آتے ہوئے ، ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب کا سچ مچ موٹر سائیکل پر ایک گدھی سے تصادم ہو گیا اور ان کی ایک ہڈی ٹوٹ گئی۔
یہ مزے دار روداد اگلی نشست تک اٹھا رکھتا ہوں۔