درد کیسے عطا ہوتا ہے؟

منیب الف

محفلین
اردو محفل پر میں نے اپنی ایک غزل شیئر کی جس کا مقطع تھا:
کچھ مجھ کو بانٹنا نہیں آتا منیبؔ اور
کچھ اُن سے میرا درد لیا بھی نہ جائے گا
اِس پر ایک عمیق شخصیت نے سوال کیا کہ منیب! آپ کو درد کیسے عطا ہوا؟
اِسی سوال کے جواب میں یہ پوسٹ تحریر کر رہا ہوں۔
اگرچہ میں خود کو اہلِ درد میں شمار کر کے بےدردوں سے ممتاز نہیں ہونا چاہتا۔
مجھ پر بھی مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں: کبھی میں درد سے پُر، اور کبھی اِس احساس سے خالی!
لیکن اِس پُر و خالی کی بحث میں پڑنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ درد کی خالی جگہ پر کروں، یعنی درد اپنی ذات میں کیا ہے؟ یہ بتانے کی کوشش کروں۔
ظاہر ہے میں جو کہوں گا، اس کی بنیاد ذاتی مطالعہ و مشاہدہ ہے (جس کے علاوہ میرے پاس ہے بھی کیا؟) اس لیے ہر ایک کو اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے۔
بہرحال، درد کی میری تعریف یہ ہے کہ درد ایک کمی کے احساس کا نام ہے۔
جو اس کمی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں، وہی اہلِ درد کہلاتے ہیں۔ بقولِ ناصرؔ کاظمی،
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
لیکن کیسی کمی؟ کس چیز کی کمی؟ زن، زر، زمین کی کمی؟
نہیں!
اس کا تعلق مادی کمی سے نہیں، روحانی کمی سے ہے!
یہ وہی کمی ہے جو گوتم کو راج محل سے جنگل تک لے جاتی ہے، جو عیسیٰؑ کو کوئے یار سے سوئے دار لے جاتی ہے، جو محمدِ عربیﷺ کو دشتِ عرب سے غارِ حرا تک لے جاتی ہے۔
لیکن اتنے بڑے نام سن کر یہ نہ سمجھیے گا کہ اس کمی کو ایسے بڑے لوگ ہی محسوس کرتے ہیں۔
نہیں، محسوس تو چھوٹے بڑے سبھی کرتے ہیں لیکن جو اس کمی کو دور کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں، وہی چھوٹے سے بڑے ہو جاتے ہیں۔
یہ کمی ہے اپنے مرکز سے دوری!
اپنے اصل سے فراق!
یعنی جہاں سے ہم آئے ہیں، وہاں لوٹنے کا اشتیاق!
گویا اہلِ درد اور بےدردوں میں حدِ فاصل یہی ہے کہ اول الذکر چاہتے ہیں کہ دار الآخرہ یعنی اپنے اصلی گھر لوٹ چلیں، جبکہ بےدرد اتنے روحانی مدارج طے نہ کرنے کے باعث دنیا ہی کو اپنا اصلی گھر سمجھنے لگتے ہیں۔
سورہ انعام کی آیت 32 میں اصلی اور غیراصلی گھر کے اسی فرق کو واضح کیا گیا ہے:
وما الحیوۃ الدنیا الا لعب ولھو، وللدار الآخرۃ خیر للذین یتقون، افلا تعقلون؟
”حیاتِ دنیا (غیراصلی گھر کی زندگی) کچھ نہیں سوائے لعب و لھو کے، اور دار الآخرہ (اصلی گھر) میں یقیناً خیر ہے ان کے لیے جو تقوی اختیار کریں، سو تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟“​
گویا تقوی وہ راستہ ہے جس سے غیراصلی گھر کو چھوڑ کے اصلی گھر پہنچا جاتا ہے۔
اس تعریف کے بعد یہ سوال رہا کہ درد عطا کیسے ہوتا ہے؟
تو دوستو! سچ تو یہ ہے کہ درد چھِنتا ہی کب ہے، جو عطا کیا جائے؟
جب ہم اُس اصلی گھر کو چھوڑ کے آتے ہیں تو اِس درد کے پتھر کو سینے سے لگائے ساتھ ہی لاتے ہیں۔
ہاں، اپنی اپنی حساسیت پر ہے کہ کون کس شدت سے اس پتھر کی گرانی کو محسوس کرتا ہے۔
جو کم محسوس کرتے ہیں، وہ زیادہ شدت سے محسوس کرنے والوں پر ہنستے ہیں، بلکہ انھیں پاگل سمجھتے ہیں۔
جیسے نطشے نے کہا ہے:
Those who dance are considered insane by those who can’t hear the music
جو موسیقی سن نہیں سکتے وہ ناچنے والوں کو پاگل خیال کرتے ہیں
وہ سمجھ نہیں پاتے کہ وہ کیا شدت ہے جو انھیں:
کی حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ مل دا
کہنے پر مجبور کر رہی ہے۔
خیر، احباب!
مبارک ہیں وہ لوگ جو اہل درد ہیں۔
اور مبارک ہیں وہ لوگ بھی جو بےدرد ہیں۔
کیونکہ اصل میں بےدرد کوئی بھی نہیں!
جن کو میں بےدرد کہہ رہا ہوں، انھیں کم درد کہنا چاہیے۔
ایک دن اُن کا درد بھی شدت اختیار کرے گا۔
ایک دن اُنھیں بھی گھر کی یاد ستانے لگے گی۔
پھر وہ کم درد نہ رہیں گے، بلکہ اہلِ درد کے ہم درد ہو جائیں گے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
بہت اعلیٰ ۔۔منیب صاحب۔ ۔ ۔ بہت مشکل مافی الضمیر کو سادہ لفظوں میں بیان کردیا اور بہت سوں کا درد جگا دیا ہم نے شروع میں بہت عام درد لیا تھا وہی محبوب سے فراق و وصال والا دوری والا مگر آپکا درد تو بہت عمیق نکلا۔۔اسی طرح کا اکثر لطف محترمہ نور سعدیہ شیخ کی لڑیوں میں آتا ہے ۔۔۔اور آپ دیکھیں گے ان کی دلی شراکت یہاں پر۔۔۔اور کیا ہی عمدہ بات کہی آپ نے
محسوس تو چھوٹے بڑے سبھی کرتے ہیں لیکن جو اس کمی کو دور کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں، وہی چھوٹے سے بڑے ہو جاتے ہیں۔
باقی تو خیر پوری بات ہی اقتباس لینے کے قابل ہے۔۔انشاءاللہ اس پر بات ہوتی رہے گی۔۔۔
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
ماشاءاللہ منیب صاحب!
اتنی شاندار نثر لکھنے پر ڈھیروں داد و تحسین ہماری جانب سے قبول فرمائیے۔
آپ کا یہ فقرہ
درد ایک کمی کے احساس کا نام ہے۔
ہمیشہ یاد رہے گا۔ کیا دریا کو کوزے میں بند کیا ہے!
آپکی تحریر پر اقبال کے یہ اشعار یاد آرہے ہیں

پریشاں ہوکے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
نہ کر دیں مجھ کو مجبورِ نوا فردوس میں حُوریں
مرا سوزِدُروں پھر گرمیِ محفل نہ بن جائے
کبھی چھوڑی ہُوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں، غمِ منزل نہ بن جائے
 
بہت عمدہ تحریر۔
اور تحریر کی خاص بات جو مجھے محسوس ہوئی وہ اس کو ادھورا نہ چھوڑنا ہے۔
مرض، مرض کی تشخیص اور علاج سب کچھ ہی تو ہے۔
اور یہ جو درمیان میں کہا کہ
محسوس تو چھوٹے بڑے سبھی کرتے ہیں لیکن جو اس کمی کو دور کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں، وہی چھوٹے سے بڑے ہو جاتے ہیں۔
یہی وہ نازک مرحلہ ہے جہاں کوئی بھٹک جاتا ہے، تو کوئی منزلِ مراد پا لیتا ہے۔
کچھ کمی کو مزید کھوجتے رہ جاتے ہیں، کچھ اسے امر لازم سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اور کچھ اس کمی کو دور کرنے کے لیے نتائج سے بے پروا ہو کر نکل پڑتے ہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
مجھے آپ کی تحریر، منظوم اس لیے اچھا لگتی ہے کہ اس میں اک خاص درد ہے..مسافت کا انجان رستہ تھا ...... پھر آپ اس پر چلنے لگے تو کسی نے راستہ بھی دکھا دیا. یوں درد سے جان پہچان کی بات تک بات کرتے جب آپ کہتے ہیں یہ کائنات قران پاک کی سی ہے کیونکہ قرانی آیات زمانے سے متعلق ہیں اور ہمارے اعمال آیتوں کی مانند بکھر رہے ہیں تو کہیں خالق کی کوئی آیت کسی ہوا کی جھونکے کی مانند ساتھ چھو کے گزرتی ہے، یہ تو کہتی ہے

افلا تعقلون .....

افلا یتفکرون ....

تب انسان سوچتا ہے، سنتا ہے اور دیکھتا ہے اور جو نہیں کرسکتے، ان کے لیے فرماتا ہے

صم بکم عمی فھم لا یرجعون

اس تلاش میں عشق، درد مستقل ملتا جاتا ہے .یہی جستجو ہے اسی سے منزل ہے. کیا شعوری طور پر درد کو پانا ممکن ہے؟ مردان ء حر شعور کو آزاد کردیں تو کیا قیمت ہوگی؟ ہر کوئی اقبال نہیں نا ..

اک جنوں ہے کہ باشعور بھی ہے
اک جنوں ہے کہ باشعور نہیں
 

منیب الف

محفلین
اکمل زیدی نوید ناظم عرفان سعید محمد تابش صدیقی نور سعدیہ شیخ
صاحبان، مجھے خوشی ہے کہ آپ نے میری تحریر کو کشادہ دلی سے قبول کیا۔
شیئر کرنے سے پہلے میں ہچکچا رہا تھا کہ نجانے اس تحریر کو کس طرح لیا جائے گا لیکن آپ کے تبصرے پڑھ کر مجھے اطمینان ہوا کہ میں جو کہنا چاہ رہا تھا، اسے کہنے میں کامیاب رہا۔
عام طور پر کہتے ہیں کہ حرفِ دل کا اظہار مشکل کام ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اس سے بھی مشکل کام اس اظہار کو اخذ کرنا ہے۔
آپ سب نے جس خوبی سے میرے اظہار کو اخذ کیا، اس کے لیے میں آپ کو داد دیتا ہوں اور تہِ دل سے ممنون بھی ہوں۔
آپ سب کے تبصروں میں کئی نکات ہیں جن کو کھولا جا سکتا ہے لیکن شاید اِس کے لیے مختلف لڑیاں درکار ہوں۔
خاص طور پر نور سعدیہ شیخ صاحبہ کے تبصرے کے ساتھ دو چار سطروں میں انصاف کرنا ممکن نہیں۔
کوشش کروں گا کہ آیندہ لڑیوں میں اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے نور صاحبہ کے سوالات کو موضوع بناؤں:
کیا شعوری طور پر درد کو پانا ممکن ہے؟ مردان ء حر شعور کو آزاد کردیں تو کیا قیمت ہوگی؟
 
ماشاءاللہ ,
منیب بھائی بہت اعلی تحریر فرمائی ہے ,
بلاشبہ جس کو یہ درد عطا ہو جائے وہ خوش نصیب ہے ۔
اس درد کی لذت دنیاوی لذتوں کے آگے بے معنی اور بہت کم تر ہیں ۔ اس درد نے نہیں تو منصور کو سولی چڑھایا ہے ۔
 

منیب الف

محفلین
ہم نے شروع میں بہت عام درد لیا تھا وہی محبوب سے فراق و وصال والا دوری والا مگر آپکا درد تو بہت عمیق نکلا۔
اکمل زیدی بھائی، درد تو سبھی کا عمیق ہوتا ہے!
جو جتنی گہرائی میں جاتا ہے، اسے اتنی ہی سطحیں نظر آنے لگتی ہیں۔
محبوب سے فراق کی طرف جو آپ نے اِشارہ کیا، وہ بھی اسی درد کی ایک اوپری سطح ہے۔
مجاز سے حقیقت کا سفر یہیں سے شروع ہوتا ہے۔
لیکن اِس پر رکنا نہیں چاہیے۔
مجازی فراق کا کوئی وصال نہیں ہوتا، صرف حقیقی فراق کا وصال ممکن ہے۔
 

منیب الف

محفلین
ماشاءاللہ منیب صاحب!
اتنی شاندار نثر لکھنے پر ڈھیروں داد و تحسین ہماری جانب سے قبول فرمائیے۔
آپ کا یہ فقرہ

ہمیشہ یاد رہے گا۔ کیا دریا کو کوزے میں بند کیا ہے!
آپکی تحریر پر اقبال کے یہ اشعار یاد آرہے ہیں

پریشاں ہوکے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
نہ کر دیں مجھ کو مجبورِ نوا فردوس میں حُوریں
مرا سوزِدُروں پھر گرمیِ محفل نہ بن جائے
کبھی چھوڑی ہُوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں، غمِ منزل نہ بن جائے
آپ کے تبصرے سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کے دل میں درد کی کسک ہے :handshake:
حوصلہ افزائی کے لیے بہت شکرگزار ہوں، عرفان بھائی :rose:
 

منیب الف

محفلین
بہت عمدہ تحریر۔
اور تحریر کی خاص بات جو مجھے محسوس ہوئی وہ اس کو ادھورا نہ چھوڑنا ہے۔
مرض، مرض کی تشخیص اور علاج سب کچھ ہی تو ہے۔
اور یہ جو درمیان میں کہا کہ
یہی وہ نازک مرحلہ ہے جہاں کوئی بھٹک جاتا ہے، تو کوئی منزلِ مراد پا لیتا ہے۔
کچھ کمی کو مزید کھوجتے رہ جاتے ہیں، کچھ اسے امر لازم سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اور کچھ اس کمی کو دور کرنے کے لیے نتائج سے بے پروا ہو کر نکل پڑتے ہیں۔
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ ایسی گہری نظر کے مالک ہیں۔
آخری تین سطریں عین حقیقت کی عکاس ہیں!
 

اکمل زیدی

محفلین
ایک بات میں نے اپنے کیفیت نامے میں کہی تھی غالباََ ۔۔جواد نقوی صاحب کے ایک بیان میں سنی تھی مناسب لگ رہا ہے کے یہاں دوہرا دوں شاید کچھ کڑی سے کڑی مل جائے۔ ۔ ۔
"انسان کے درجے کی تشخیص کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کے اسے کیا چیز لذت دے رہی ہے اور کس چیز سے تکلیف پہنچ رہی ہے"
 

عرفان سعید

محفلین
عام طور پر کہتے ہیں کہ حرفِ دل کا اظہار مشکل کام ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اس سے بھی مشکل کام اس اظہار کو اخذ کرنا ہے۔
آپ سب نے جس خوبی سے میرے اظہار کو اخذ کیا، اس کے لیے میں آپ کو داد دیتا ہوں اور تہِ دل سے ممنون بھی ہوں۔
میرے علاوہ باقی تمام حضرات عالی فہم و ذوق رکھنے والے ہیں، ان کے بارے کلام نہیں۔
البتہ جس طرح میں نے اخذ کیا، وہ میرا ہی حوصلہ ہے۔ :)
 
Top