اردو محفل پر میں نے اپنی ایک غزل شیئر کی جس کا مقطع تھا:
اِسی سوال کے جواب میں یہ پوسٹ تحریر کر رہا ہوں۔
اگرچہ میں خود کو اہلِ درد میں شمار کر کے بےدردوں سے ممتاز نہیں ہونا چاہتا۔
مجھ پر بھی مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں: کبھی میں درد سے پُر، اور کبھی اِس احساس سے خالی!
لیکن اِس پُر و خالی کی بحث میں پڑنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ درد کی خالی جگہ پر کروں، یعنی درد اپنی ذات میں کیا ہے؟ یہ بتانے کی کوشش کروں۔
ظاہر ہے میں جو کہوں گا، اس کی بنیاد ذاتی مطالعہ و مشاہدہ ہے (جس کے علاوہ میرے پاس ہے بھی کیا؟) اس لیے ہر ایک کو اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے۔
بہرحال، درد کی میری تعریف یہ ہے کہ درد ایک کمی کے احساس کا نام ہے۔
جو اس کمی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں، وہی اہلِ درد کہلاتے ہیں۔ بقولِ ناصرؔ کاظمی،
نہیں!
اس کا تعلق مادی کمی سے نہیں، روحانی کمی سے ہے!
یہ وہی کمی ہے جو گوتم کو راج محل سے جنگل تک لے جاتی ہے، جو عیسیٰؑ کو کوئے یار سے سوئے دار لے جاتی ہے، جو محمدِ عربیﷺ کو دشتِ عرب سے غارِ حرا تک لے جاتی ہے۔
لیکن اتنے بڑے نام سن کر یہ نہ سمجھیے گا کہ اس کمی کو ایسے بڑے لوگ ہی محسوس کرتے ہیں۔
نہیں، محسوس تو چھوٹے بڑے سبھی کرتے ہیں لیکن جو اس کمی کو دور کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں، وہی چھوٹے سے بڑے ہو جاتے ہیں۔
یہ کمی ہے اپنے مرکز سے دوری!
اپنے اصل سے فراق!
یعنی جہاں سے ہم آئے ہیں، وہاں لوٹنے کا اشتیاق!
گویا اہلِ درد اور بےدردوں میں حدِ فاصل یہی ہے کہ اول الذکر چاہتے ہیں کہ دار الآخرہ یعنی اپنے اصلی گھر لوٹ چلیں، جبکہ بےدرد اتنے روحانی مدارج طے نہ کرنے کے باعث دنیا ہی کو اپنا اصلی گھر سمجھنے لگتے ہیں۔
سورہ انعام کی آیت 32 میں اصلی اور غیراصلی گھر کے اسی فرق کو واضح کیا گیا ہے:
اس تعریف کے بعد یہ سوال رہا کہ درد عطا کیسے ہوتا ہے؟
تو دوستو! سچ تو یہ ہے کہ درد چھِنتا ہی کب ہے، جو عطا کیا جائے؟
جب ہم اُس اصلی گھر کو چھوڑ کے آتے ہیں تو اِس درد کے پتھر کو سینے سے لگائے ساتھ ہی لاتے ہیں۔
ہاں، اپنی اپنی حساسیت پر ہے کہ کون کس شدت سے اس پتھر کی گرانی کو محسوس کرتا ہے۔
جو کم محسوس کرتے ہیں، وہ زیادہ شدت سے محسوس کرنے والوں پر ہنستے ہیں، بلکہ انھیں پاگل سمجھتے ہیں۔
جیسے نطشے نے کہا ہے:
خیر، احباب!
مبارک ہیں وہ لوگ جو اہل درد ہیں۔
اور مبارک ہیں وہ لوگ بھی جو بےدرد ہیں۔
کیونکہ اصل میں بےدرد کوئی بھی نہیں!
جن کو میں بےدرد کہہ رہا ہوں، انھیں کم درد کہنا چاہیے۔
ایک دن اُن کا درد بھی شدت اختیار کرے گا۔
ایک دن اُنھیں بھی گھر کی یاد ستانے لگے گی۔
پھر وہ کم درد نہ رہیں گے، بلکہ اہلِ درد کے ہم درد ہو جائیں گے۔
کچھ مجھ کو بانٹنا نہیں آتا منیبؔ اور
کچھ اُن سے میرا درد لیا بھی نہ جائے گا
اِس پر ایک عمیق شخصیت نے سوال کیا کہ منیب! آپ کو درد کیسے عطا ہوا؟کچھ اُن سے میرا درد لیا بھی نہ جائے گا
اِسی سوال کے جواب میں یہ پوسٹ تحریر کر رہا ہوں۔
اگرچہ میں خود کو اہلِ درد میں شمار کر کے بےدردوں سے ممتاز نہیں ہونا چاہتا۔
مجھ پر بھی مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں: کبھی میں درد سے پُر، اور کبھی اِس احساس سے خالی!
لیکن اِس پُر و خالی کی بحث میں پڑنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ درد کی خالی جگہ پر کروں، یعنی درد اپنی ذات میں کیا ہے؟ یہ بتانے کی کوشش کروں۔
ظاہر ہے میں جو کہوں گا، اس کی بنیاد ذاتی مطالعہ و مشاہدہ ہے (جس کے علاوہ میرے پاس ہے بھی کیا؟) اس لیے ہر ایک کو اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے۔
بہرحال، درد کی میری تعریف یہ ہے کہ درد ایک کمی کے احساس کا نام ہے۔
جو اس کمی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں، وہی اہلِ درد کہلاتے ہیں۔ بقولِ ناصرؔ کاظمی،
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
لیکن کیسی کمی؟ کس چیز کی کمی؟ زن، زر، زمین کی کمی؟جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
نہیں!
اس کا تعلق مادی کمی سے نہیں، روحانی کمی سے ہے!
یہ وہی کمی ہے جو گوتم کو راج محل سے جنگل تک لے جاتی ہے، جو عیسیٰؑ کو کوئے یار سے سوئے دار لے جاتی ہے، جو محمدِ عربیﷺ کو دشتِ عرب سے غارِ حرا تک لے جاتی ہے۔
لیکن اتنے بڑے نام سن کر یہ نہ سمجھیے گا کہ اس کمی کو ایسے بڑے لوگ ہی محسوس کرتے ہیں۔
نہیں، محسوس تو چھوٹے بڑے سبھی کرتے ہیں لیکن جو اس کمی کو دور کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں، وہی چھوٹے سے بڑے ہو جاتے ہیں۔
یہ کمی ہے اپنے مرکز سے دوری!
اپنے اصل سے فراق!
یعنی جہاں سے ہم آئے ہیں، وہاں لوٹنے کا اشتیاق!
گویا اہلِ درد اور بےدردوں میں حدِ فاصل یہی ہے کہ اول الذکر چاہتے ہیں کہ دار الآخرہ یعنی اپنے اصلی گھر لوٹ چلیں، جبکہ بےدرد اتنے روحانی مدارج طے نہ کرنے کے باعث دنیا ہی کو اپنا اصلی گھر سمجھنے لگتے ہیں۔
سورہ انعام کی آیت 32 میں اصلی اور غیراصلی گھر کے اسی فرق کو واضح کیا گیا ہے:
وما الحیوۃ الدنیا الا لعب ولھو، وللدار الآخرۃ خیر للذین یتقون، افلا تعقلون؟
”حیاتِ دنیا (غیراصلی گھر کی زندگی) کچھ نہیں سوائے لعب و لھو کے، اور دار الآخرہ (اصلی گھر) میں یقیناً خیر ہے ان کے لیے جو تقوی اختیار کریں، سو تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟“
گویا تقوی وہ راستہ ہے جس سے غیراصلی گھر کو چھوڑ کے اصلی گھر پہنچا جاتا ہے۔”حیاتِ دنیا (غیراصلی گھر کی زندگی) کچھ نہیں سوائے لعب و لھو کے، اور دار الآخرہ (اصلی گھر) میں یقیناً خیر ہے ان کے لیے جو تقوی اختیار کریں، سو تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟“
اس تعریف کے بعد یہ سوال رہا کہ درد عطا کیسے ہوتا ہے؟
تو دوستو! سچ تو یہ ہے کہ درد چھِنتا ہی کب ہے، جو عطا کیا جائے؟
جب ہم اُس اصلی گھر کو چھوڑ کے آتے ہیں تو اِس درد کے پتھر کو سینے سے لگائے ساتھ ہی لاتے ہیں۔
ہاں، اپنی اپنی حساسیت پر ہے کہ کون کس شدت سے اس پتھر کی گرانی کو محسوس کرتا ہے۔
جو کم محسوس کرتے ہیں، وہ زیادہ شدت سے محسوس کرنے والوں پر ہنستے ہیں، بلکہ انھیں پاگل سمجھتے ہیں۔
جیسے نطشے نے کہا ہے:
Those who dance are considered insane by those who can’t hear the music
جو موسیقی سن نہیں سکتے وہ ناچنے والوں کو پاگل خیال کرتے ہیں
وہ سمجھ نہیں پاتے کہ وہ کیا شدت ہے جو انھیں:جو موسیقی سن نہیں سکتے وہ ناچنے والوں کو پاگل خیال کرتے ہیں
کی حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ مل دا
کہنے پر مجبور کر رہی ہے۔کوئی محرم راز نہ مل دا
خیر، احباب!
مبارک ہیں وہ لوگ جو اہل درد ہیں۔
اور مبارک ہیں وہ لوگ بھی جو بےدرد ہیں۔
کیونکہ اصل میں بےدرد کوئی بھی نہیں!
جن کو میں بےدرد کہہ رہا ہوں، انھیں کم درد کہنا چاہیے۔
ایک دن اُن کا درد بھی شدت اختیار کرے گا۔
ایک دن اُنھیں بھی گھر کی یاد ستانے لگے گی۔
پھر وہ کم درد نہ رہیں گے، بلکہ اہلِ درد کے ہم درد ہو جائیں گے۔