محترم محمد مسلم صاحب، آپ نے ای میل کر کے مجھے اس موضوع پر لکھنے کیلیے کہا اور معذرت خواہ ہوں کہ مصروفیات کی وجہ سے دیر سے اپنی میل دیکھ سکا۔
آپ نے استفسار کیا کہ اقبال کے مصرعے
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو
میں پہلے راہ اور دوسرے رہ کی عروضی حیثیت کیا ہے اور دوسرے رہ کا تلفظ کیا ہوگا۔
جیسا کہ اعجاز صاحب اور دیگر احباب نے لکھا، عروضی حیثیت سے مصرعے میں پہلی جگہ "راہ" اور دوسری جگہ "رہ" ہی درکار ہے ورنہ وزن خراب ہوگا۔
جہاں تک معانی کی بات ہے تو جو "رہ" یہاں استعمال ہوا ہے وہ فارسی "راہ" کی ہی ایک شکل ہے جس کا مطلب راستہ وغیرہ ہیں جیسا کہ مصرع سے بھی واضح ہے، اور یہ ہندی "رِہ" نہیں ہے جس کے معانی رک جانا، مت کرنا وغیرہ ہیں وگرنہ مصرعے کا مطلب ختم ہو جائے گا اور یہ ایک مہمل مصرع ہو جائے گا اور ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
آپ کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ لفظ "راہ" سے "رَہ" ہے تو پھر ایک گلوکارہ نے اسے "رِہ" کیوں گایا ہے، جیسا کہ ایک دوست نے اوپر لکھا کہ گلوکارہ کا تلفظ نہ ہی تو حجت ہے اور نہ ہی سند، لیکن ہو سکتا ہے کہ گلوکارہ نے اسے کسی وجہ سے ایسے گایا ہو (گو یہ مصرع سنا نہیں) اور وجہ اسکی یہ ہے کہ جدید فارسی میں ہر وہ لفظ جس کے آخر میں نہ بولے جانے والی ہائے ہوز (ہ) ہو اس کا تلفظ وہ زیر کے ساتھ کرتے ہیں جب کہ ہم اس کا تلفظ زبر کے ساتھ کرنے کے عادی ہیں، مثلاً
شہزادہ ہم اسے شہزادا بولتے ہیں، جدید فارسی لہجے میں یہ "شہزادے" بولا جائے گا۔
شگفتہ، ہم اسے شگفتا بولتے ہیں، ایران میں اسے "شگفتے" بولتے ہیں۔
فاطمہ، ہم فاطما کہتے ہیں، جب کہ جدید فارسی لہجے میں یہ "فاطمے" ہے۔
و علی ہذا القیاس
واضح رہے کہ لکھنے میں جدید تلفظ نہیں آ سکتا ، یہ جو میں نے لکھا کہ شگفتے یا فاطمے بولتے ہیں تو یہ اس طرح کھینچ کر نہیں بولتے جسطرح ہم ے کو کھینچ کر بولتے ہیں یہ زیر اور یے کے بین بین ایک آواز ہوتی ہے اور اہلِ زبان ہی اس کو ادا کر سکتا ہے یا وہ شخص جس نے باقاعدہ سیکھا ہو۔
کہنے کا مطلب یہ کہ، جدید فارسی لہجے میں زبر کی جگہ زیر بولا جاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ گلوکارہ نے اسی اصول کے تتبع میں "رَہ" کو "رِہ" گایا ہو حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیئے تھا کیونکہ نہ تو کلام فارسی ہے اور نہ ہی گلوکارہ و سامعین۔
واللہ اعلم بالصواب۔
اور آخری بات یہ کہ اس مسئلے میں اتنے تردد کی ضرورت نہیں، مصرع واضح ہے اور مطلب بھی
والسلام