تاہم مجھے یہ بات کچھ بے چین سا کر رہی ہے۔ ’’اہلِ حوالہ‘‘ اس کو چاہے میری کم نظری پر محمول کریں یا جیسے ان کے مزاج میں آئے۔ ’’لکھنا‘‘ کسی بھی نبی کا کام کبھی نہیں رہا۔ اس لکھنا کو یہاں ’’کہنا‘‘ قرار دے بھی لیا جائے تو پھر ’’پڑھنا‘‘ کیا ہوا؟ سننا یا سمجھنا؟ اس محاورے کی غایت قرار دینا ’’ایسی بات جو بہت پیچیدہ ہو مشکل ہو، عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہو‘‘ محلِ نظر ہے۔ نبی کا تو منصب یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائے۔ میری اس گزارش کی توسیع یوں کر لیجئے ہر آسمانی کتاب جس امت پر نازل کی گئی ان لوگوں کی زبان میں کی گئی، کہ مقصود میں عامۃ الناس اور خواص سب شامل ہیں۔کتابستان نے بھی ایسے ہی لکھا ہے۔ ’’لکھے موسٰی پڑھے خدا‘‘
محاورہ تو محاورہ ہے جیسے ایک بار چل گیا سو چل گیا۔
تاہم مجھے یہ بات کچھ بے چین سا کر رہی ہے۔ ’’اہلِ حوالہ‘‘ اس کو چاہے میری کم نظری پر محمول کریں یا جیسے ان کے مزاج میں آئے۔ ’’لکھنا‘‘ کسی بھی نبی کا کام کبھی نہیں رہا۔ اس لکھنا کو یہاں ’’کہنا‘‘ قرار دے بھی لیا جائے تو پھر ’’پڑھنا‘‘ کیا ہوا؟ سننا یا سمجھنا؟ اس محاورے کی غایت قرار دینا ’’ایسی بات جو بہت پیچیدہ ہو مشکل ہو، عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہو‘‘ محلِ نظر ہے۔ نبی کا تو منصب یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائے۔ میری اس گزارش کی توسیع یوں کر لیجئے ہر آسمانی کتاب جس امت پر نازل کی گئی ان لوگوں کی زبان میں کی گئی، کہ مقصود میں عامۃ الناس اور خواص سب شامل ہیں۔
وہ جو ہے کہ ’’بال جیسا باریک‘‘ لکھا ہوا، کوئی اور سمجھ پائے یا نہیں لکھنے والے کو تو پتہ ہے کہ اس نے کیا لکھا۔ درست یہی بنتا ہے:
’’ لکھے مو سا، پڑھے خود آ ‘‘
اس کے پیچھے ایک کہانی بھی ہے، کسی کا خط آیا، وہ اتنا باریک لکھا تھا کہ پڑھا نہیں جاتا تھا، جس نے خط پڑھے کی کوشش کی وہ کہہ اٹھا: جس نے ایسا باریک لکھا ہے آ کر خود ہی پڑھ بھی دے۔
محاورے کے طور پر رائج ہوتے ہوتے یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جوڑ دیا گیا اور ویسے ہی کتابوں میں آ گیا۔ اور بات وہیں پہنچی کہ
مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ تاہم ایک اور ضمنی الجھن پیدا ہو رہی ہے کہ "پڑھے خود آ" کیا تکنیکی اعتبار سے درست ہے؟ اس کی جگہ پڑھے خود آپ یا پڑھے خود آن یا اس طرح کا جملہ بہتر نہ رہے گا؟
تاہم مجھے یہ بات کچھ بے چین سا کر رہی ہے۔ ’’اہلِ حوالہ‘‘ اس کو چاہے میری کم نظری پر محمول کریں یا جیسے ان کے مزاج میں آئے۔ ’’لکھنا‘‘ کسی بھی نبی کا کام کبھی نہیں رہا۔ اس لکھنا کو یہاں ’’کہنا‘‘ قرار دے بھی لیا جائے تو پھر ’’پڑھنا‘‘ کیا ہوا؟ سننا یا سمجھنا؟ اس محاورے کی غایت قرار دینا ’’ایسی بات جو بہت پیچیدہ ہو مشکل ہو، عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہو‘‘ محلِ نظر ہے۔ نبی کا تو منصب یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائے۔ میری اس گزارش کی توسیع یوں کر لیجئے ہر آسمانی کتاب جس امت پر نازل کی گئی ان لوگوں کی زبان میں کی گئی، کہ مقصود میں عامۃ الناس اور خواص سب شامل ہیں۔
وہ جو ہے کہ ’’بال جیسا باریک‘‘ لکھا ہوا، کوئی اور سمجھ پائے یا نہیں لکھنے والے کو تو پتہ ہے کہ اس نے کیا لکھا۔ درست یہی بنتا ہے:
’’ لکھے مو سا، پڑھے خود آ ‘‘
اس کے پیچھے ایک کہانی بھی ہے، کسی کا خط آیا، وہ اتنا باریک لکھا تھا کہ پڑھا نہیں جاتا تھا، جس نے خط پڑھے کی کوشش کی وہ کہہ اٹھا: جس نے ایسا باریک لکھا ہے آ کر خود ہی پڑھ بھی دے۔
محاورے کے طور پر رائج ہوتے ہوتے یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جوڑ دیا گیا اور ویسے ہی کتابوں میں آ گیا۔ اور بات وہیں پہنچی کہ
فارقلیط رحمانی صاحب: جواب نمبر 15لیکن اگر اہلِ زبان نے کچھ تصرف کر لیا ہو تو جائز ہے۔
بلا شبہ ابتدا میں صرف اُنہی لوگوں کو ”اہلِ زبان“ کہا جاتا تھا،جن کی مادری زبان اردو تھی اور وہ ”اردو ماحول“ میں نسل در نسل اردو سنتے اور بولتے چلے آئے تھے۔ لیکن جب اردو کو ایسے لوگوں نے بھی ”اپنا“ لیا، جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی اور ان لوگوں میں اردو کے ایسے ایسے ادیب، شاعر، اساتذہ اور ماہر لسانیات پیدا ہونے لگے، جو مروجہ ”اہلِ زبان“ کے ہم پلہ ہی نہیں بلکہ اس سے بہتربھی تھے تو اردو زبان و ادب کے ان ادباء، شعراء، اساتذہ اور سنجیدہ طالب علموں کو ”غیر اہلِ زبان“ کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ میری ناقص رائے میں (جو اب اتنی بھی ناقص نہیں ہے ) جو اپنے آپ کو اردو زبان کا ”اہل“ ثابت کردے، وہ ”اہلِ زبان“ ہے، خواہ اُس کی مادری زبان اردو نہ بھی ہو۔ اور اسے بھی اردو زبان سے متعلق وہ تمام ”حقوق“ (جیسے تصرف وغیرہ) حاصل ہونگے، جو مادری زبان والے اہلِ زبان کو بائی ڈیفالٹ حاصل تھے یا ہیں۔ میرے کہنے کامطلب یہ ہے کہ:اہلِ زبان سے کیا مراد ہے؟ اور غیر اہلِ زبان کون ہیں؟