اہلِ زبان کا حقِ تصرف زبان، محاورے وغیرہ میں: اس کی حقیقت کیا ہے؟تصرف کوئی اہلِ زبان کرے تو بجا، وہی یا اس سے ملتا جلتا تصرف کوئی ’’غیر اہلِ زبان‘‘ کرے تو بے جا؟اہلِ زبان سے کیا مراد ہے؟ اور غیر اہلِ زبان کون ہیں؟
اتفاق سے ایک بات پھر سامنے آ گئی۔
"لیکن اگر اہلِ زبان نے کچھ تصرف کر لیا ہو تو جائز ہے۔"فارقلیط رحمانی صاحب: جواب نمبر 15
اہلِ زبان کا حقِ تصرف زبان، محاورے وغیرہ میں: اس کی حقیقت کیا ہے؟
تصرف کوئی اہلِ زبان کرے تو بجا، وہی یا اس سے ملتا جلتا تصرف کوئی ’’غیر اہلِ زبان‘‘ کرے تو بے جا؟
اہلِ زبان سے کیا مراد ہے؟ اور غیر اہلِ زبان کون ہیں؟
الف عین ، محمد وارث ، محمد خلیل الرحمٰن ، فاتح ، یوسف-2
براہِ کرم میرے ان سوالوں کو کسی بھی انداز میں طنز وغیرہ پر محمول نہ کیجئے گا۔
گزشتہ دنوں ایک ہی لفظ کے دو معروف لغاتوں میں دو مختلف معانی میں پائے گئے، ایسے میں اردو کا طالب علم کیا کرے؟
اگر اس طرح الفاظ کو اپنی مرضی کے معانی (خلافِ ضابطہ) عطا کرنا تصرف کہلاتا ہے اور اہلِ زبان (یا چلئے: زبان دان) کو اس کا حق دیا جاتا ہے تو زبان کا کیا بنے گا؟ اردو تو بے چاری پہلے ہی دوست نما دشمنوں میں گھری ہوئی ہے۔
میری ناقص رائے میں زبان کوئی منجمد شئے نہیں ہے کہ اس کی ہیئت (قواعد و ضوابط) سدا یکساں رہے۔ زبان وہی زندہ رہتی ہے، جس میں نمو ہوتی رہے اور وہ تغیر زمانہ کا ساتھ دیتی رہے۔ میر امن کی اردو اور آج کی اردو میں بڑا فرق ہے۔ اردو میں دیگر زبانوں سے ”درآمد“ ہونے والے بہت سے الفاظ ”مشرف بہ اردو“ ہوکر اپنے اصل مفہوم و معانی کھو چکے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ زبان پہلے ”وجود“ میں آتی ہے، اس کے قواعد و ضوابط بعد میں تشکیل پاتے ہیں۔ ادباء و شعراء چونکہ زبان کی ”تخلیق“ میں اہم کردار ادا کرتےہیں لہٰذا وہ مروجہ اسلوب میں ”تجربات“ کرتے رہتے ہیں۔ ایک طرح سے ادباء و شعراء کو زبان و ادب میں ”خود مختاری“ حاصل ہوتی ہے کہ وہ ادب کی تخلیق میں جس طرح چاہیں زبان کو برتیں، یا زبان میں تصرف کریں۔ ایسے تمام ”تصرفات“ کو مسترد یا قبول کرنے کا فیصلہ ”آنے والا وقت“ ہی کرتاہے۔ اگر اسے ”قبول عام“ کا درجہ حاصل ہوجائے تو مستقبل کے لغت نویس، نقاد اور اساتذہ از خود اسے تسلیم کرلیتے ہیں۔ بصورت دیگر اسے مسترد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اردو زبان کے ”فطری ارتقاء“ کو نہ روکا جائے نہ ہی لکھنے والوں کو ”پابند“ کردیا جائے کہ وہ لغت اور تادم تحریر منضبط قواعد کے اندر ہی اپنی تخلیقات پیش کریں۔ لکھاری کو اپنے انداز سے لکھنے کی آزادی ہونی چاہئیے اور ہر نئی طرز، اصطلاح، تصرف، یا نئے لفظ کو قبول یا مسترد کرنے کا فیصلہ مستقبل پر چھوڑ دینا چائیے، جیسا کہ اب تک ہوتا آرہا ہے کہ
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہجس دیئے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا
یہ جملہ (معترضہ) میرا نہیں ہے۔
"
لیکن اگر اہلِ زبان نے کچھ تصرف کر لیا ہو تو جائز ہے۔
"
یہ مؤلف نوراللغات کا جملہ ہے۔ میں نے وہیں سے اقتباس پیش کیا ہے،
براہِ کرم اسے فارقلیط رحمانی کے نام سے مت جوڑیے۔
محترممحمد یعقوب آسیصاحب !استاد ناسخ کی اس رباعی کے آخری مصرع کی تقطیع کیا ہو گی؟؟؟
تصویر صنم میں کمر اے کلک ازلپنہاں ہے نگہ سے یا نگہ کا ہے خللجز عالم غیب کون جانے یہ رازلکھے موسیٰ پڑھے خداسچ ہے یہ مثل