حسان خان
لائبریرین
اس زمانے میں جہاں اور بہت سے بھونڈے اور بے ہودہ تعصبات نے فروغ پایا ہے، وہاں سنی اور شیعہ تعصب کو بھی روز افزوں ترقی نصیب ہوئی ہے۔ یہ وہ تعصب ہے جس نے مسلمان معاشرے کو شدید ترین نقصانات پہنچائے ہیں۔ ہمیں سیاسی اور مصلحت پسندانہ اندازِ بیاں سے پرہیز کرتے ہوئے پوری تاریخی حقیقت پسندی کے ساتھ یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ یہ مردود اور مطرود تعصب چودہ صدیوں سے جاری ہے۔ بس یہ ہے کہ یہ کبھی مغلوب رہا اور کبھی غالب۔ جب غالب ہوا ہے تو وہ حوادث ظہور میں آئے ہیں جن کو یاد کر کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور آنکھیں خوننابہ فشاں ہو جاتی ہیں۔
اس وقت ایک سلسلۂ خیال ہے کہ جاری ہے۔ اس سلسلۂ خیال کے دوران مجھے اچانک 'قدیم مسلم لیگ' کا خیال آ گیا ہے۔ مسلم لیگ کی تحریک کے بارے میں برِ صغیر اور برِ صغیر کے باہر کے سیاسی مفکرین نے متضاد خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن ایک بات کو سب نے تسلیم کیا ہے اور وہ بات یہ ہے کہ قدیم مسلم لیگ یا یوں کہہ لیجیے کہ تقسیمِ ہند سے پہلے کی مسلم لیگ، پاکستان ساز مسلم لیگ مسلمانانِ ہند کی سب سے نمائندہ جماعت تھی۔
یہاں یہ حقیقت بھی قابلِ ذکر ہے کہ مسلمانوں کی متعدد تنظیموں نے مسلم لیگ کے مزاج اور کردار سے شدید اختلاف کیا۔ اختلاف کرنے والی ان تنظیموں میں ایسی متعدد شخصیتیں بھی شامل تھیں جنہیں برِ صغیر کے مسلمان معاشرے میں سیاسی طور پر تو مقبولیت حاصل نہ ہو سکی مگر اس واقعیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ برِ صغیر میں مسلمانوں کی تہذیب کے نمائندوں کی حیثیت سے مسلم لیگ میں دو ایک شخصیتیں ہی ان کے مقابلے میں لائی جا سکتی ہیں۔ یہاں میں ان دو ایک شخصیتوں کے نام یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ پہلی شخصیت۔۔۔؟ علامہ اقبال، دوسری شخصیت۔۔۔؟ مولانا حسرت موہانی، تیسری شخصیت۔۔۔؟ مولانا ظفر علی خاں۔
مسلم لیگ سے اتفاق رکھنے والے ہی نہیں اختلاف کرنے والے بھی مختلف توجیہات کے ساتھ اس واقعیت کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلم لیگ نے آزادی سے پہلے کے چند سال کی مدت کے دوران مسلمانانِ ہند کے مختلف فرقوں کی اکثریت کے درمیان ایک یادگار اتحاد پیدا کرنے میں مثالی کامیابی حاصل کی۔
۱۹۳۸ء میں سنیوں اور شیعوں کے درمیان ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے زیادہ لچر اور پوچ مگر سب سے زیادہ گھمبیر تصادم کا ایک انتہائی جاہلانہ سلسلہ وقوع میں آیا۔ اس سلسلے میں جو بات سے زیادہ افسوس ناک ہے وہ یہ ہے کہ شمالی ہند کا سب سے زیادہ نفیس، لطیف اور شائستہ شہر لکھنؤ اس بے ہودہ ترین تمثیل کا اسٹیج قرار پایا۔ وہ لکھنؤ جو شیعہ و سنی عوام اور خواص اور شیعہ اور سنی علما، فضلا اور شعرا کے دلی رشتوں اور جذبوں کا ایک عجیب پرفضا شہر رہا تھا۔ یہاں مجھے لکھنؤ اسکول کے ایک معتبر ترین اور محترم ترین شاعر لسان القوم حضرت صفی لکھنوی کی نظم کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔ یہ نظم بدنصیب سنیوں اور بدبخت شیعوں کے باہمی رشتے کے موضوع پر لکھی گئی تھی۔ وہ شعر یہ ہے
اس وقت ایک سلسلۂ خیال ہے کہ جاری ہے۔ اس سلسلۂ خیال کے دوران مجھے اچانک 'قدیم مسلم لیگ' کا خیال آ گیا ہے۔ مسلم لیگ کی تحریک کے بارے میں برِ صغیر اور برِ صغیر کے باہر کے سیاسی مفکرین نے متضاد خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن ایک بات کو سب نے تسلیم کیا ہے اور وہ بات یہ ہے کہ قدیم مسلم لیگ یا یوں کہہ لیجیے کہ تقسیمِ ہند سے پہلے کی مسلم لیگ، پاکستان ساز مسلم لیگ مسلمانانِ ہند کی سب سے نمائندہ جماعت تھی۔
یہاں یہ حقیقت بھی قابلِ ذکر ہے کہ مسلمانوں کی متعدد تنظیموں نے مسلم لیگ کے مزاج اور کردار سے شدید اختلاف کیا۔ اختلاف کرنے والی ان تنظیموں میں ایسی متعدد شخصیتیں بھی شامل تھیں جنہیں برِ صغیر کے مسلمان معاشرے میں سیاسی طور پر تو مقبولیت حاصل نہ ہو سکی مگر اس واقعیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ برِ صغیر میں مسلمانوں کی تہذیب کے نمائندوں کی حیثیت سے مسلم لیگ میں دو ایک شخصیتیں ہی ان کے مقابلے میں لائی جا سکتی ہیں۔ یہاں میں ان دو ایک شخصیتوں کے نام یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ پہلی شخصیت۔۔۔؟ علامہ اقبال، دوسری شخصیت۔۔۔؟ مولانا حسرت موہانی، تیسری شخصیت۔۔۔؟ مولانا ظفر علی خاں۔
مسلم لیگ سے اتفاق رکھنے والے ہی نہیں اختلاف کرنے والے بھی مختلف توجیہات کے ساتھ اس واقعیت کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلم لیگ نے آزادی سے پہلے کے چند سال کی مدت کے دوران مسلمانانِ ہند کے مختلف فرقوں کی اکثریت کے درمیان ایک یادگار اتحاد پیدا کرنے میں مثالی کامیابی حاصل کی۔
۱۹۳۸ء میں سنیوں اور شیعوں کے درمیان ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے زیادہ لچر اور پوچ مگر سب سے زیادہ گھمبیر تصادم کا ایک انتہائی جاہلانہ سلسلہ وقوع میں آیا۔ اس سلسلے میں جو بات سے زیادہ افسوس ناک ہے وہ یہ ہے کہ شمالی ہند کا سب سے زیادہ نفیس، لطیف اور شائستہ شہر لکھنؤ اس بے ہودہ ترین تمثیل کا اسٹیج قرار پایا۔ وہ لکھنؤ جو شیعہ و سنی عوام اور خواص اور شیعہ اور سنی علما، فضلا اور شعرا کے دلی رشتوں اور جذبوں کا ایک عجیب پرفضا شہر رہا تھا۔ یہاں مجھے لکھنؤ اسکول کے ایک معتبر ترین اور محترم ترین شاعر لسان القوم حضرت صفی لکھنوی کی نظم کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔ یہ نظم بدنصیب سنیوں اور بدبخت شیعوں کے باہمی رشتے کے موضوع پر لکھی گئی تھی۔ وہ شعر یہ ہے
پردہ ہائے ساز رنگارنگ تھے
چھیڑ دے کوئی تو ہم آہنگ تھے
میں نے کہیں پڑھا تو نہیں مگر اپنے مردان خانے میں سنا ہے کہ لکھنؤ کے اِن سنی اور شیعہ فسادات کے زمانے میں ایک فرقے نے مولانا ابوالکلام آزاد سے یہ خواہش کی کہ وہ اپنے خاندانی مسلک کی تائید و حمایت کے لیے میدان میں اتر آئیں اور ایک فرقے نے قائدِ اعظم کو توجہ دلائی کہ وہ اپنے 'جذبۂ ایمانی' کا ثبوت دیں اور اس معرکے میں حصہ لیں مگر مولانا ابوالکلام آزاد اور قائدِ اعظم نے اپنے اپنے ان 'ہم مسلکوں' کو جھڑک کے لوٹا دیا۔
۱۹۳۸ء کے وہ سنی اور شیعہ بلوے جن کو افغانستان تک محسوس کیا گیا تھا، مسلم لیگ کی غیر فرقہ وارانہ تحریک کی کارگزاری کے باعث ۱۹۳۹ء تک بھولی ہوئی کہانی بن چکے تھے۔
مسلم لیگ کی اس اثریت کے اسباب کیا تھے؟ یہ موضوع ایک مفصل معاشی، سماجی اور سیاسی توجیہ کا متقاضی ہے۔ یہاں ۱۹۳۸ء کے ان بلووں کے بارے میں یہ بتا دینا مناسب ہوگا کہ ان میں بات سر پھٹول اور چاقو زنی کے چند واقعات سے آگے نہیں بڑھی تھی۔ ہاں گرفتاریاں پیش کرنے کے لیے ہزاروں لوگ ہندوستان کے بعید ترین حصوں سے لکھنؤ پہنچے تھے۔
مسلم لیگ کی کارگزاری کے زیرِ اثر تقریباً گیارہ بارہ برس تک سنی شیعہ اتحاد کی ایک ایسی فضا قائم رہی اور یہ دونوں اس انداز سے شانہ بشانہ رہے جس کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں کم ہی ملے گی بلکہ شاید نہ ملے۔ ظاہر ہے کہ مسلم لیگ سے میری مراد پاکستان ساز مسلم لیگ ہے۔ آج وہ مسلم لیگ باقی نہیں ہے جس نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کی اکثریت کے دائرے کی حد تک ایک غیر متعصب کردار ادا کیا تھا لیکن اس کا غیر فرقہ وارانہ طرزِ سیاست ہمارے لیے ایک انتہائی شاندار نمونے کی حیثیت رکھتا ہے اور آج کے سنی شیعہ تعصب کی زہریلی فضا میں ایک نسخۂ شفا ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھی جائے کہ مسلمان تاریخ کے سب سے درخشندہ اور تابندہ معاشرے وہ تھے جو سنیوں اور شیعوں کے مشترکہ معاشرے تھے۔ بغداد کا معاشرہ اس حقیقت کی سب سے زیادہ درخشندہ مثال ہے۔ سنیوں اور شیعوں کے اس عظیم الشان معاشرے کو کس نے تباہ کیا، زوالِ بغداد جس پر شیخ سعدی خون کے آنسو روئے تھے، کس بات کا نتیجہ تھا؟ تو سنیے کہ سنی اور شیعہ تعصب کا اور ان خوں ریز فسادات کا جو محرم میں ہوا کرتے تھے۔ آخرکار محرم کے مہینے کے ایک خوں ریز فساد کے نتیجے میں بغداد کا کام تمام ہو گیا۔ آخر میں مجھے یہ عاجزانہ گزارش کرنا ہے کہ سنی اور شیعہ تعصب کو سر اٹھانے کی قطعاً مہلت نہ دی جائے، قطعاً اور اس بات پر ایک تاریخی فیصلے کی طرح عمل کیا جائے۔ تاریخ کی حقیقتوں کے درمیان یہ ایک ناگزیر فیصلہ ہے۔
(سسپنس ڈائجسٹ، اکتوبر ۲۰۰۸)