دریافت

La Alma

لائبریرین
دریافت
آدم نے شاید سکھلائے گئے اِسماء میں سے سچ کے اسم کو زیرِ لب بار بار دہرایا تھا جو اس پر سر بمہر خزائنِ علوم یوں منکشف ہوئے. ہر نئے انکشاف پر آدم کا تحیر دیدنی ہو گا. پردہِ حیرت کی اوٹ سے اگر سچ نمودار ہو تو پھر تجسس ہمیشہ حیران ہی رہنا چاہتا ہے. یہی تجسس اسے شجرِ ممنوعہ کی طرف لے گیا. آدم کا یہ عمل بھی سچ پر مبنی تھا. انتہائی معرفت حق کے باوجود انسان کو پہلی باراپنے کردار کے دوسرے رخ کا ادراک ہوا. انسان کے خمیر میں گندھی یہی جستجو ازل سے حق و باطل میں کش مکش کا سبب رہی ہے.
راستہ سچ کا ہو یا جھوٹ کا, سفرِ زیست کی پیمائش ایک سی ہوتی ہے، بس سچ کی مسافت کٹھن لگتی ہے اور بہت طویل بھی, جیسے کسی اونچی ڈھلان پر چڑھنا لیکن قدم ہمیشہ بلندی پر جا کر ہی رکتے ہیں. جھوٹ سریع الاثر ہے، اس کی راہ سہل سہی ؛ سفر کی صعوبتیں لاکھ کم سہی، لیکن اس کے راہی کے پاؤں بالآخر خاک میں ہی آ پڑتے ہیں .
یہی حقیقت ذات کی ہے . ذات کا سچ اور جھوٹ اپنی ہی ہستی کی ڈھلان پر چڑھنا اور اترنا ہے. زندگی اور ذات مختلف حقیقتیں ہیں. زندگی کے اپنے اصول ہیں اور ذات کے اپنے قاعدے، زندگی کو راہ دکھاتے دکھاتے کبھی ذات بھٹک جاتی ہے اور کبھی زندگی کو سمیٹتے سمیٹتے ہستی بکھر جاتی ہے. بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کے دونوں صورتیں متصادم ہو جاتی ہیں . اسی کشمکش میں سچ بیک وقت صریح جھوٹ بھی ہوتا ہے. انسان ڈھلان کے کسی ایک مقام پر ساکت وجامد حیران کھڑا رہ جاتا ہے.
اس وقوف پہ زندگی کا ہاتھ تھام کر ذات کی سچائی کو خاموش کروا دینا اپنی ہستی کے ساتھ کھلم کھلا منافقت اور سرا سر ظلم ہے.اپنی روح کی موت ہے. سچائی صرف کردار کی خوبیوں کا نام نہیں بلکہ کردار کی خامیاں بھی ذات کے سچ کا حصّہ ہیں . دنیا کا پہلا انسان بھی اسی مقام پر آ کر ٹھٹکا تھا لیکن اس کی بھول نے اسے سچ کا اسم بھولنے نہیں دیا.وہ اپنی خامیوں سے بھی آگاہ ہوا . آدم کی خطا نے اسے خدا کے اور نزدیک کر دیا اور وہ مقرب اور برگزیدہ بندوں میں شامل ہوگیا. زمین پر اترا، ایک نئے جہاں سے متعارف ہوا.
ہر غلطی کے بعد ایک نئی دریافت ہوتی ہے، روز اول سے یہی سچ ہے. دعا ہے اگر ذات کا تجسس، خدا کی نظر میں خطا ہے تو پھر استغفار کے وہ سچے کلمات نصیب ہو جائیں جس سے لغزش بھی حکمِ ربّی قرار پائے. انسان آدم کی طرح ایک نئے جہاں میں آن اترے، اپنے باطن کی نئی دنیا دریافت کر لے.
 

نایاب

لائبریرین
بلاشبہ متاثر کن تحریر
کسب ہو یا کہ عطا ۔۔۔۔۔ بہرصورت رشک کی حامل
ماشاء اللہ
جناب آدم کی خطا کس رمز پر استوار تھی ۔اس رمز کے کھلنے پر " تجسس اور جستجو " بارے آگہی ملی ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ رمز " وہبی " تھی یا کہ "ذاتی" ؟
وہبی تھی تو کیا مقصود تھا اس سے ۔؟
اگر ذاتی تھی تو کیا سبب تھا ۔۔؟
یہ کوئی بحث کا آغاز نہیں ہے ۔ صرف سوال ہیں ۔
اللہ سوہنا آپ کے علم میں بے حدو حساب اضافہ فرمائے آمین
ڈھیروں دعائیں
 

La Alma

لائبریرین
بلاشبہ متاثر کن تحریر
کسب ہو یا کہ عطا ۔۔۔۔۔ بہرصورت رشک کی حامل
ماشاء اللہ
جناب آدم کی خطا کس رمز پر استوار تھی ۔اس رمز کے کھلنے پر " تجسس اور جستجو " بارے آگہی ملی ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ رمز " وہبی " تھی یا کہ "ذاتی" ؟
وہبی تھی تو کیا مقصود تھا اس سے ۔؟
اگر ذاتی تھی تو کیا سبب تھا ۔۔؟
یہ کوئی بحث کا آغاز نہیں ہے ۔ صرف سوال ہیں ۔
اللہ سوہنا آپ کے علم میں بے حدو حساب اضافہ فرمائے آمین
ڈھیروں دعائیں


آدم کی یہ خطا نہ کُلی طور پر ذاتی تھی نہ وہبی، بلکہ یہ اسی جزوی اختیار کا شاخسانہ تھی جسے عرفِ عام میں تقدیر کہتے ہیں. جس کا لکھا ہو کر رہتا ہے. اس میں یقینًا خدا کی حکمت پوشیدہ تھی . انسان کی یہی خطا، جزا و سزا کے خدائی فلسفے کی تشریح کا جواز بنی . اس سے ایک طرف تو آدم کی آزمائش مطلوب تھی دوسری طرف شیطانی وسوسوں کے شر سے آگاہی مقصود تھی .(مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ-الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاس.
(شیطان) وسوسہ انداز کی برائی سے جو (خدا کا نام سن کر) پیچھے ہٹ جاتا ہے.جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے.) اسی لغزش نے روئے زمین پر اترنے سے قبل نہ صرف انسان کی پہلی باضابطہ تربیت کے آغاز کی بنیاد فراہم کی بلکہ اپنے " کھلے دشمن " کی پہچان کا سبب بھی بنی . اسی روز بندگانِ خدا کے لیے نافع اور مضر علم کے بیچ ایک خطِ امتیاز کھینچ دیا گیا .
اس تقصیر کی رمز " ذاتی " ہو یا نہ ہو لیکن آدم کو صراطِ مستقیم سے بھٹکنے کے انجام کا، عین الیقین سے عملی مشاہدہ کرایا گیا . انسان نے پہلی بار "ذاتی" تجربے سے سیکھا کہ (" إِنَّ ٱلْإِنسَٰنَ لَفِى خُسْر ٍ بےشک انسان خسارے میں ہے" ) ، کیوں اور کیسے ہے .پھر اس نقصان کی تلافی کے لیے " وہبی " نوعیت کے یہ کلمات عطا ہوئے ("رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخٰسِرِينَ
اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔"), جو ہر رجوع کرنے والے بندے کے لیے تا قیامت باعثِ رحمت اور مغفرت ہیں .
 

نایاب

لائبریرین
ماشاء اللہ
سچی کتاب کے گہرے مطالعے کا عکاس ۔
مدلل جواب ہے ۔ مگر یہ حقیقت اپنی جگہ کہ کئی سوالوں کو جنم دے رہا ہے ۔
مزید سوال " بحث " کا سبب نہ جائیں کہیں ۔ ؟
بلا شک جو کتاب اللہ کو " پڑھنا اور سمجھنے کی کوشش کرنا " اپنا شعار بنا لے ۔
اس کے لیئے رب سچا آسان کر دیتا ہے علم و آگہی کے سمندر کو ۔
سچا سمیع العلیم آپ کو یونہی اپنے علم و حکمت سے نوازتا رہے آمین
ڈھیروں دعائیں
 

La Alma

لائبریرین
غلط اور صحیح کے فیصلہ کا اختیار بھی انسان ہی کو دیا گیا ہے۔
غلط اور صحیح راہ منتخب کرنے کا اختیار انسان کو ہے لیکن غلط اور صحیح کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے . البتہ وحی کے ذریعے غلط اور صحیح کا فرق سمجھا دیا گیا ہے .
 

arifkarim

معطل
غلط اور صحیح راہ منتخب کرنے کا اختیار انسان کو ہے لیکن غلط اور صحیح کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے . البتہ وحی کے ذریعے غلط اور صحیح کا فرق سمجھا دیا گیا ہے .
یعنی جہاں انسان اپنے شعور کے مطابق غلط یا صحیح کا فیصلہ کرے اس فیصلہ کو درست مانا نہیں جائے گا؟
 

نایاب

لائبریرین
بحث کرنے میں کیا برائی ہے۔ نئے علوم کیلئے بحث و مباحثہ ضروری ہے۔
میرے محترم بھائی
پبلک فورمز پر اکثر اوقات دوستوں کی گفتگو " مناقشے " کا سبب بن جاتی ہے ۔
کچھ مجھ ایسے اراکین بنا گفتگو کی رمز کو سمجھے صرف " فتاوی "کی مہر اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں ۔
اچھا بھلا " مومن " پل بھر میں " ملحد " کے درجے پر سرفراز کر دیا جاتا ہے ۔
سو " اور بھی غم ہیں " کی سچائی کی جانب متوجہ رہنا بہتر ۔
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
جب خدا نے خود آدم کو انتخاب کا حق دیا تو اس کے انتخاب کو خطا کیوں کہا جائے؟
اللہ سوہنے سچے خالق کی حکمت ۔
آزادی کے نام پر بہلائے پروانوں کے سامنے شمع روشن کر رکھ دینا ۔۔۔۔۔
جو لپکا جل مرا ۔ جس نے غور و فکر کیا وہ بچ نکلا ۔۔۔
آپے پاوے کنڈیاں آپے کھچے ڈور ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
یعنی فتاویٰ کے خوف سے صحت مند بحث کا حصہ بننا پسند نہیں ہے؟
میرے بھائی سوشل میڈیا پر ہی نہیں بلکہ حقیقی دنیا میں بھی " ملحد " سے کہیں بڑے بڑے درجے پا چکا ہوں ۔
مجھے اپنی ذات بارے کوئی ڈر نہیں ۔ لیکن میرے معصوم دوست میری وجہ سے کسی مشکل میں الجھیں یہ قبول نہیں ۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

La Alma

لائبریرین
یعنی جہاں انسان اپنے شعور کے مطابق غلط یا صحیح کا فیصلہ کرے اس فیصلہ کو درست مانا نہیں جائے گا؟
انسانی شعور کو بھی غلط یا صحیح کے ادراک کے لیے ایک "معیار " کی ضرورت ہوتی ہے جس کی کسوٹی پر صحیح یا غلط کا فیصلہ کیا جا سکے . ہر انسان اس کا اہل نہیں ہوتا . اس لیے غلط اور صحیح کا کوئی standard تو وضع کرنا ہی پڑتا ہے .
 

arifkarim

معطل
انسانی شعور کو بھی غلط یا صحیح کے ادراک کے لیے ایک "معیار " کی ضرورت ہوتی ہے جس کی کسوٹی پر صحیح یا غلط کا فیصلہ کیا جا سکے . ہر انسان اس کا اہل نہیں ہوتا . اس لیے غلط اور صحیح کا کوئی standard تو وضع کرنا ہی پڑتا ہے .
معیار بھی تو انسان اپنے انتخاب سے طے کرتے ہیں۔ جیسے معیاری اشیاء کی طلب بڑھا کر اسکی فروخت بڑھاتے ہیں یہاں تک کہ وہ معیار کا اسٹینڈرڈ بن جاتی ہیں۔ بالکل ویسے ہی انسانی شعور کے تحت غلط یا صحیح کیا ہے اسکا تعین مجموعی انتخاب کروا کر معلوم کیا جا سکتا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
جن معاشروں میں انسانی شعور کے تحت غلط اور صحیح کا فیصلہ بذریعہ قانون سازی کیا گیا ہے، انکے بارہ میں وحی کیا کہتی ہے؟
انسانی شعور نے جن ذرائع سے قانون سازی بارے اکتساب کیا ۔ ان ذرائع بارے اگر کھوج کی جائے تو یہ " حواس انسانی " پر قائم دکھائی ملیں گے ۔
اور " حواس " کا فیصلہ " فکر اور سوچ " کی بھٹی سے گزر اکتساب کرتے سامنے آتا ہے ۔ فکر اور سوچ ہی " صحیح اور غلط " بارے رہنمائی کرتے کسی فیصلے کا سبب بنتے ہیں ۔ فکر و سوچ کہاں سے آئی ؟ وحی کا بیان سامنے آ جائے گا ۔
بہت دعائیں
 
Top