بہت خوب تحریر ہے !
ڈھلان ایسی ہی ہوتی ہے کبھی کھائی میں گرادیتی ہے تو کبھی پہاڑ پر ۔۔۔۔۔ ڈھلان کا رستہ ہم میں سے ہرکسی کو ملتا نہیں ہے کیونکہ ہم اس کے راہی ہوتے اس منزل کی جانب جاتے ہیں جس جانب ہم نے دوسروں کو اپنے جھنڈے گاڑے دکھانے ہوتے ہیں ۔۔۔ اپنی ذات کا آئنہ اجاگر ہونے کے بعد سوالات کا تیشہ جوابات کے ہیروں سے بھرجاتا ہے ۔۔۔ آئنے کے سامنے کنگھی کرتے ، بولتے ہم اپنا روپ دیکھتے ہیں ہم نے کبھی کسی اور جیسا ہونے کی خواہش نہیں کی ، کسی اور کی طرح طلب نہیں کی ۔۔۔ہماری فطرت ہماری طلب ہر کسی سے منفرد ہے اسی طرح ہمارا عمل بھی ، لوح و قلم بھی آئنہ ہے ، آدم بھی اور عالم بھی ۔۔۔ کلمات اس صدا کی طرح ہے جس کو ہوا کی لہریں ایک آئنے سے دوسرے آئنے کی جانب لے جاتی ہیں ، قبول کرنے والے قبول کرلیتے ہیں