F@rzana
محفلین
کہنے والے کتھا کرتے ہیں کہ دور ہمالیہ کے پہاڑوں میں ’کن پھٹے‘ جوگیوں (جوگیوں میں ریاضت یا تپسیا کی بڑی منزل) نے ایک بہت بڑا سانپ پکڑا جو انکے ہاتھوں سے کھسک کر بھاگ نکلا۔
سانپ جہاں جہاں سے بھی بھاگتا گیا وہاں وہاں سے یہی سندھو دریا بہہ نکلا۔ آخر کار وہ سانپ جا کر ’سندھی سمندر‘ میں گم ہوگیا۔
سندھی سمندر، جسے اب عربی سمندر کہا جاتا ھے۔
دریائے سندھ کے کناروں عظیم و قدیم وید لکھے گئے جن میں اسی دریا کو ’سپت سندھو‘ بھی کہا گیا۔
شب برات کی رات جب پورا شہر ایک دیوالی کا سماں باندھ دیتا تب میں اور میرا دوست ذوالفقار شاہ گدو بندر کے دوسرے کنارے بہت سے لوگوں کیساتھ جاکر گندھے ہوئے آٹے کی گولیوں میں کاغذ کے چھوٹے سے پرزے پر اپنے اور اپنی ماں کے نام کیساتھ ’دریا شاہ‘ کو ’عریضی‘ بھیجا کرتے۔ میں اگر چہ ٹہرا ایک دہریہ لیکن اپنے دوست کے ساتھ ’من کی مراد‘ پوری کرنے کیلیے ’دریا شاہ‘ میں عریضی ضرور پھینکتا۔
وہ دن تھے جب ھم ہندی فلمی گیتوں کو بدل کر گاتے ’سندھو میا میں جب تک یہ پانی رہے، میرے سجناں تیری زندگانی رہے‘ یا مکیش کا وہ گیت ’ہم اس دیش کے باسی ہیں جس دیش میں سندھو بہتی ھے‘۔ اسی جگہ پو پھٹی میں ھم دیکھتے کہ کہیں کہیں آج بھی سندھو کے کنارے دنیا وما فیہا سے بےخبر ’جر پوجارے‘ یا ’جل پوجاری‘ اپنی تپسیا میں محو ہوتے۔ وہ دریا شاہ کی پوجا کرتے۔
اسی جگہ پو پھٹی میں ھم دیکھتے کہ کہیں کہیں آج بھی سندھو کے کنارے دنیا وما فیہا سے بےخبر ’جر پوجارے‘ یا ’جل پوجاری‘ اپنی تپسیا میں محو ہوتے۔ وہ دریا شاہ کی پوجا کرتے۔
اصل میں دریائے سندھ کے کناروں بسنے والے لوگ سبھی اندر سے ’جل پوجاری‘ یا پانی کی پرستش کرنے والے ہی نکلیں گے۔۔۔۔ اور نکلیں بھی کیوں نہ!
جل پوجاری، دھول دھیے، مہانے (مچھیرے) ، ماچھی، ملاح، میر بحر، کیل، جت، بلوچ ترکان، اور نہ جانے کس کس قبیل اور قماش کے لوگوں کا دانہ پانی دریا سے لکھا ھے۔
ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان اور کالا باغ سے بھی آگے ’دھول دھیے‘ سندھو کی ریت میں سونے کے ذرات تلاش کرنے کی کیمیاگری کرتے۔ سیوھن اور ٹھٹہ تک پنجابی کشتی ساز مشہور ہیں اور انکی کشتی کو کہتے ہی ’پنجابی کشتی‘ ہیں۔
ملاح جب سندھو میں اپنی نئی یا پہلی کشتی اتارتے ہیں تو اسے دلہن کی طرح سجاتے، منگنہار شہنائیاں بجاتے، ملاح مرد، عورتیں اور بچے ’جھومر‘ رقص کرتے۔ میٹھی روٹیاں پکا کر دریا شاہ کی نظر کرتے۔
’ادا مہانا بیڑی وارا لال تے تھی ونجاں‘ (بھائی مچھیرے کشتی والے میں لال پر ھوں چلی)۔ لال سے مراد قلندر شھباز ھے۔
مہانے دریا اور زبان کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ ’کہاں گئی تھی کیا کروانے؟‘ میں نے جامشورو میں ایک مہانے مرد کو اپنی بیوی سے پوچھتے سنا۔ مہانی خاتون نے کہا ’ٹھیکیدار کے پاس گئی تھی کام کے پیسے لینے؟‘ ’پھر دیئے اس نے؟‘ مرد نے پوچھا۔ ’تیرے والا ٹکا کے دیا نہ!‘ عورت نے کہا۔
سندھو دریا میں کل تک کشتیوں پر گاؤں ہوا کرتے تھے اور کہیں کہیں (سکھر سمیت) اب بھی ہیں۔ ان میں ایسے بھی ملاح مرد اور عورتیں ہیں جنھوں نے بس خشکی تب ہی دیکھی جب کسی کو قبرستان میں دفن کرنے یا خود دفن ھونے کے لیے گئے۔ وہ پیدا ہی کشتی پر ہوتے ہیں، چند سالوں میں دریا میں تیرنا سیکھ جاتے ہیں اور کچھ بڑے ہوکر مچھلیاں پکڑنے اور جال یا رچھ ڈالنے کے بھی قابل ہوجاتے ھیں۔ ’ھماری کھیتی باڑی بھی دریا اور مچھلی ھے‘ مجھ سے ایک مچھیرے نے کہا تھا۔
ان میں ایسے بھی ملاح مرد اور عورتیں ہیں جنھوں نے بس خشکی تب ہی دیکھی جب کسی کو قبرستان میں دفن کرنے یا خود دفن ھونے کے لیے گئے۔
سندھو دریا جب ہزاروں میل طے کرکے سندھ میں داخل ہوتا ھے تو اسکی لہریں اپنے ساتھ وہ مٹی کی زرخیز لٹ بھی لاتی ھے جس سے اسکے دونوں کناروں کچے کا علاقہ آباد ہوتا ہے۔ سندھ کا کچہ ایک عجیب ملک تھا، اب جہاں ڈاکو ہیں، وڈیرے ہیں اور جنگلی سؤر ہیں۔ سندھ میں ڈاکوؤں نے مچھیروں کے عذابوں میں بھی اضافہ کیا۔ انکی لڑکیاں اور لڑکے اٹھاکر لے جاتے۔ پولیس اور وڈیرے مچھیروں کی عورتوں پر ایسا ظلم کرتے جسیا پھولن دیوی پر بننے والی فلم ’بینڈیٹ کوئین‘ میں ہے۔ اگرچہ کچھ میر بحر بھی جاکر ڈاکو بنے۔ گر میربحروں کے قبیلے سے سندھ کے وزیر اعلٰی ، سی ایس ایس افسر، اساتذہ، سیاسی اور سماجی کارکن بھی بنے ہیں۔ ان میں مقابلے کے امتحان میں پوزیشن لینے والا اب لاڑکانہ کا ڈی پی اور سائیں رکھیو میرانی بھی ہے تو آفتاب شعبان میرانی بھی۔
اگر یہ بات زیادہ اسٹیریو ٹائيپ نہں ھے تو مہنی کے چلنے کا انداز ممبئی فیشن شو کی، بقول ھمارے ایک دوست کے ، کیٹ واک کو بھی شرما جائے۔
اب تو سندھو میں اتنی مچھلی بھی اسکے جال میں نہں آتی جو شام کو وہ اپنے بچوں کیلیے آٹا اور اپنے لیے چرس لیکر گھر کو لوٹے۔ میرے ایک اور دوست نے ایسے مہانے کو ’کھل نائیک‘ کا نام دیا مگر سب سے بڑے کھل نائیک تو وہ رینجرز والے ہیں جنکو حال ہی میں سندھ میں دریا پر مچھلی کے ٹھیکے دیئے گئے۔ اس سے پہلے ایسے ٹھیکے زرداریوں کو دیئے گئے تھے۔
سندھو کے کناروں پر زندگی کبھی ایسی تھی اور ہے جیسے امریکی جنوب میں مسسی سپی پر۔ میں ایک دفعہ مسی سپی کو دیکھ کر سندھو کی پانیوں کو یاد کرکے رو دیا تھا:
’شاہ جو دریا تھا قید ہے کیا گیا اور اسی کی موج موج فوج نے فنا ھے کی‘،
میں نے اس دن اپنی ایک نظم میں لکھا تھا۔ اسی دریا کو ’دادلا‘ یعنی لاڈلا بھی کہا گیا لیکن جب سے اس نے سوہنی ڈبوئی شاہ لطیف بھٹائی نے اسے ’دھشتگرد‘ بھی کہا۔ شاہ لطیف نے اپنے سُر سوھنی میں ایک شعر میں کہا
’دریا ! میں قیامت کے دن تجھ پر فریاد کروں گا کہ کسطرح تونے میرا بازو (سوھنی ) ڈبو دیا‘۔ سندھی عورت کو بازو کہتے ہیں اور بہت سے اسکو ’ کاری‘ بھی کرتے ہیں!
لیکن سندھو اور سندھیوں سے بھی زیادہ جو چیز مظلوم ہے وہ سندھو میں ’ڈولفن‘ مچھلی ہے۔ اب نہیں معلوم کہ پورے سندھو میں اب کتنی ڈولفن جاکر بچی ہے لیکن چند سال قبل تک اسکی تعداد شاید پچاس بھی نہیں ہوگي۔ جامشورو سے کشمور تک انڈس ڈولفن اندھی ڈولفن یا عام طور پر ’بلھن‘ کہلانے والی مچھلی سے لوگوں نے دشمنی، دوستی اور اسکینڈلز وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ مظہر زیدی اور فرجاد نبی کو یاد ہوگا کہ ہم نے کیسے ٹھٹہ ضلعے کے بنوں میں دریائے سندھ میں کشتی کھیتے بڑی عمر کی مچھیروں سے انکی جوانی میں ڈولفن پر ’جنسی مہم جوئی‘ کے قصے سنے تھے۔ لوگوں میں ایک متھ یہ بنی ہوئی ہے کہ ’بلھن‘ کے جسم کے نچلے حصے سے اپنی کسی جنسی پارٹنر کی طرح سیکس کر سکتے ہیں۔ ’بلہن کو مارتے ھیں کیونکہ وہ ایک نجس مخلوق ھے‘ ایک مولوی ٹائیپ ملاح نے کہا۔
ڈولفن کے ساتھ اب تو اچھی خاصی تعداد میں سندھ کی پلا مچھلی بھی کمیاب ہوتی جارہی ہے۔ سندھو ندی کے میٹھے پانی میں پیدا ہونیوالی یہ پلہ مچھلی اب بیراجوں ، مشینریوں اور پلاسٹک کی جال سے مرنے لگی ہے۔ اسی پلے کیلیے کہتے تھے کہ یہ کوٹری اپ سٹریم سے ڈاؤن سٹریم کی طرف سکھر تک اپنا سفر طے کرکے بزرگ ’صدر الدین شاہ بادشاہ‘ کی درگاہ کی سلامی بھرنے آتی ہے۔
اب وہ سندھو کی لہروں کے تھپیڑے کھاتا ھوا ’فتح مبارک‘ نامی جہاز کا ڈھانچہ بھی کوٹری کے پاس ریت میں ریت بنا جس پر چڑھ کر چارلس نیپیئر نے سندھ فتح کرنے کا گناہ کیا تھا۔ اسکے جہاز کو اسی سندھ کی فتح سے منسوب ’فتح مبارک‘ کا نام دیا گیا۔ چارلس نیپیئر نے ملکہ برطانیہ کو سندھ فتح کرنے کا جو پیغام بھیجا تھا، اس میں اس نے اطالوی زبان میں یہ ذو معنی جملہ لکھا تھا جسکا مؤرخ کہتے ہیں ترجمہ کچھ یوں تھا :
’آئی ھیو سِنڈ‘ (’میں نےگناہ کیا ھے یا سندھ میرے قبضے میں ہے۔
سندھ فتح کرنا انگریز حکمرانوں کی فرسٹریشن تھی۔ انیسویں صدی میں جب افغانستان میں جنگجو پٹھانوں کے ھاتھوں انکی فوجوں کے کشتوں کے پشتے لگنے لگے تو انھوں نے اپنی جھینپ اور تشفی کے لیے سندھ فتح کرنے کی ٹھانی۔ اس سندھ کے تاریخی گنہگار (چارلس نیپیئر) نے جو سب سے اچھا کام کیا وہ سندھ میں عورتوں کو’ کاری‘ قرار دیکر قتل کرنے کے خلاف سخت سزاؤں کا اعلان تھا۔ سندھیوں نے کہا چارلس نیپئیر کے آنے سے بہت سوں کے ازار بند سے تلوار کا خوف ختم ھوا مگر اب یہ چارلس نیپير دیسی یا ولایتی کی دیسی اولادیں ہیں جو ہر روز وشب سندھ فتح کرنے کا گناہ کرتے ہیں۔ کل میں نے ایک سندھی اخبار میں کسی بزرگ کالم نگار کا نقل کیا ھوا شعر پڑھ رھا تھا:
’ڈیم بنانے والے مجھ کو اتنا تو بتا،ڈھاکہ میں ھم کتنے پانی ہار گئے‘۔
سندھو ندی میں پانی کے شدید قلت اور ڈاؤن اسٹریم میں میٹھے پانی کی مطلوبہ مقدار نہ چھوڑے جانے کی وجہ سے زمینوں اور دریا کی طرف سمندر آنے لگا ھے۔ ہزاروں مچھیرے اور کاشتکار ملک کے دوسرے حصوں میں نقل مکانی کرکے گئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے مچھیرے تو ایران افغانستان کے سرحدوں پر تافتان کی جھیلوں تک بھی چلے گئے ہیں۔ کوٹری سے یہانتک کہ کیٹی بندر میں اب مچھیرے مچھلی پکڑنے کے بجائے سانپ پکڑ کر گزارہ کرنے لگے ہیں۔ کیٹی بندر، جسکی یونین کاؤنسل کبھی اتنی امیر تھی کہ اس نے کراچي میونسپلٹی کو اپنا خسارہ پورا کرنے کیلیے قرضہ دیا تھا۔
کوٹری سے یہانتک کہ کیٹی بندر میں اب مچھیرے مچھلی پکڑنے کے بجائے سانپ پکڑ کر گزارہ کرنے لگے ہیں۔ کیٹی بندر، جسکی یونین کاؤنسل کبھی اتنی امیر تھی کہ اس نے کراچي میونسپلٹی کو اپنا خسارہ پورا کرنے کیلیے قرضہ دیا تھا۔
کیا آپ نے کیٹی بندر پر شام میں اترتی کونجوں اور سورج ڈھلنے کا نظارہ کیا ہے؟
یہاں سے تھوڑی دور سندھو دریا کا ملن سمندر سے ہوتا ہے۔ کھارو چھان پر یہ بنارس کی صبحوں اور اودھ کی شاموں کو بھی شرمادیں۔ یہیں پر ایک شام میں نے کہا تھا:
’روپہلی شام سندھو پر اترے اسطرح جیسے وحی اترے محمد پر‘۔
کوٹری سے کھارو چھان تک مچھلی کی تقریبًا ایک سو میانیاں یا ھاربر بند ھوئے ہیں۔ بدین میں شیخانی گھاڑی اور دوسرے علاقوں میں مچھلی کے ٹھیکے حکومت نے رینجرز کو عطا کیے، سندھو کی ڈیلٹائی علاقوں میں وہ جنہیں ’نارے کا نواب‘ کہا جاتا تھا اور جو ساٹھ اور سو ایکڑ زمین کے مالک ہوا کرتے تھے، اب جلانے کی لکڑیاں بیچ کر گزارہ کرنے لگے ہیں۔ کہتے ھیں کہ سمندری پانی آنے کی وجہ سے بدین میں دودو سومرو اور اسکے ساتھیوں کے مزار اور اسکی تخت گاہ ’روپاہ ماڑی‘ بھی خطرے سے خالی نہیں۔ سندء میں علاؤالدین خلجی کے ساتھ جنگ کرکے مرجانے والے دودو سومرو کو وہ اھمیت ھے جو جنوبی ہندوستان میں ٹیپو سلطان کی ہے۔ دودو سومرو کی موت کے بعد صدیوں تک اسکے سوگ میں خانہ بدوش ریباری لوگ سیاہ پوش بنے۔ ریباری تھر اور راجھستان میں آج بھی ملتے ہیں اور ڈھٹ اور بھٹ فقیر دودو سومرو اور اسکے لشکر کی بہادری کے رزمیہ قصے گاتے ہیں۔
سندھو میں موت سے بھی سندھ کے بہت سے پڑھے لکھے لوگوں نے رومانس کیا ہے۔ بقول شخصے جو بھی سندھی دانشور یا شاعر گھر سے ناراض ہو وہ سندھو ندی میں خودکشی کرلیتا ھے۔یہ کہنا زیادہ مبالغہ خیز نہیں ہوگا کہ جامشورو پل کا ایکتالیسواں دروازہ یا المظر ہوٹل زندگی سے بغاوت کرنے والے اہل ھوش و خرد سندھیوں کی آتم ھتیا کا سٹیشن بن چکا ہے بالکل ایسے جیسے ہندی شاعر ودیا پتی کی منزل ہندوستنانی دریا ٹہرا تھا۔
انیس سو سڑسٹھ میں جامشورو سے بہت ہی بڑے سکالر اور سندھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر علامہ آئي آئي قاضی نے خود کو سندھو کی لہروں کے حوالے کرکے خودکشی کی۔ نوجوان سندھی شاعر ماٹیہنو اوٹھو نے بھی اسی جگہ پر خود کشی کی۔ پھر پڑھے لکھے نوجون احمد علی ڈاھر نے یہی کیا اور چار آگست انیس سو اکانوے کو نوجوان شاعر اور خوبرو قوم پرست کارکن عرفان مہدی نے:
’دریا آج تکا کرتا ھے لہروں کو، کشتی کھینے والا لڑکا ڈوب گیا‘۔
جامشورو میں خودکشی یا خود کشی کرنے کی کوشش کرنیوالوں میں نوجوان لڑکوں اور خاص طور لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو گمنام ہوتی ہیں۔
بشکریہ: بی بی سی
سانپ جہاں جہاں سے بھی بھاگتا گیا وہاں وہاں سے یہی سندھو دریا بہہ نکلا۔ آخر کار وہ سانپ جا کر ’سندھی سمندر‘ میں گم ہوگیا۔
سندھی سمندر، جسے اب عربی سمندر کہا جاتا ھے۔
دریائے سندھ کے کناروں عظیم و قدیم وید لکھے گئے جن میں اسی دریا کو ’سپت سندھو‘ بھی کہا گیا۔
شب برات کی رات جب پورا شہر ایک دیوالی کا سماں باندھ دیتا تب میں اور میرا دوست ذوالفقار شاہ گدو بندر کے دوسرے کنارے بہت سے لوگوں کیساتھ جاکر گندھے ہوئے آٹے کی گولیوں میں کاغذ کے چھوٹے سے پرزے پر اپنے اور اپنی ماں کے نام کیساتھ ’دریا شاہ‘ کو ’عریضی‘ بھیجا کرتے۔ میں اگر چہ ٹہرا ایک دہریہ لیکن اپنے دوست کے ساتھ ’من کی مراد‘ پوری کرنے کیلیے ’دریا شاہ‘ میں عریضی ضرور پھینکتا۔
وہ دن تھے جب ھم ہندی فلمی گیتوں کو بدل کر گاتے ’سندھو میا میں جب تک یہ پانی رہے، میرے سجناں تیری زندگانی رہے‘ یا مکیش کا وہ گیت ’ہم اس دیش کے باسی ہیں جس دیش میں سندھو بہتی ھے‘۔ اسی جگہ پو پھٹی میں ھم دیکھتے کہ کہیں کہیں آج بھی سندھو کے کنارے دنیا وما فیہا سے بےخبر ’جر پوجارے‘ یا ’جل پوجاری‘ اپنی تپسیا میں محو ہوتے۔ وہ دریا شاہ کی پوجا کرتے۔
اسی جگہ پو پھٹی میں ھم دیکھتے کہ کہیں کہیں آج بھی سندھو کے کنارے دنیا وما فیہا سے بےخبر ’جر پوجارے‘ یا ’جل پوجاری‘ اپنی تپسیا میں محو ہوتے۔ وہ دریا شاہ کی پوجا کرتے۔
اصل میں دریائے سندھ کے کناروں بسنے والے لوگ سبھی اندر سے ’جل پوجاری‘ یا پانی کی پرستش کرنے والے ہی نکلیں گے۔۔۔۔ اور نکلیں بھی کیوں نہ!
جل پوجاری، دھول دھیے، مہانے (مچھیرے) ، ماچھی، ملاح، میر بحر، کیل، جت، بلوچ ترکان، اور نہ جانے کس کس قبیل اور قماش کے لوگوں کا دانہ پانی دریا سے لکھا ھے۔
ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان اور کالا باغ سے بھی آگے ’دھول دھیے‘ سندھو کی ریت میں سونے کے ذرات تلاش کرنے کی کیمیاگری کرتے۔ سیوھن اور ٹھٹہ تک پنجابی کشتی ساز مشہور ہیں اور انکی کشتی کو کہتے ہی ’پنجابی کشتی‘ ہیں۔
ملاح جب سندھو میں اپنی نئی یا پہلی کشتی اتارتے ہیں تو اسے دلہن کی طرح سجاتے، منگنہار شہنائیاں بجاتے، ملاح مرد، عورتیں اور بچے ’جھومر‘ رقص کرتے۔ میٹھی روٹیاں پکا کر دریا شاہ کی نظر کرتے۔
’ادا مہانا بیڑی وارا لال تے تھی ونجاں‘ (بھائی مچھیرے کشتی والے میں لال پر ھوں چلی)۔ لال سے مراد قلندر شھباز ھے۔
مہانے دریا اور زبان کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ ’کہاں گئی تھی کیا کروانے؟‘ میں نے جامشورو میں ایک مہانے مرد کو اپنی بیوی سے پوچھتے سنا۔ مہانی خاتون نے کہا ’ٹھیکیدار کے پاس گئی تھی کام کے پیسے لینے؟‘ ’پھر دیئے اس نے؟‘ مرد نے پوچھا۔ ’تیرے والا ٹکا کے دیا نہ!‘ عورت نے کہا۔
سندھو دریا میں کل تک کشتیوں پر گاؤں ہوا کرتے تھے اور کہیں کہیں (سکھر سمیت) اب بھی ہیں۔ ان میں ایسے بھی ملاح مرد اور عورتیں ہیں جنھوں نے بس خشکی تب ہی دیکھی جب کسی کو قبرستان میں دفن کرنے یا خود دفن ھونے کے لیے گئے۔ وہ پیدا ہی کشتی پر ہوتے ہیں، چند سالوں میں دریا میں تیرنا سیکھ جاتے ہیں اور کچھ بڑے ہوکر مچھلیاں پکڑنے اور جال یا رچھ ڈالنے کے بھی قابل ہوجاتے ھیں۔ ’ھماری کھیتی باڑی بھی دریا اور مچھلی ھے‘ مجھ سے ایک مچھیرے نے کہا تھا۔
ان میں ایسے بھی ملاح مرد اور عورتیں ہیں جنھوں نے بس خشکی تب ہی دیکھی جب کسی کو قبرستان میں دفن کرنے یا خود دفن ھونے کے لیے گئے۔
سندھو دریا جب ہزاروں میل طے کرکے سندھ میں داخل ہوتا ھے تو اسکی لہریں اپنے ساتھ وہ مٹی کی زرخیز لٹ بھی لاتی ھے جس سے اسکے دونوں کناروں کچے کا علاقہ آباد ہوتا ہے۔ سندھ کا کچہ ایک عجیب ملک تھا، اب جہاں ڈاکو ہیں، وڈیرے ہیں اور جنگلی سؤر ہیں۔ سندھ میں ڈاکوؤں نے مچھیروں کے عذابوں میں بھی اضافہ کیا۔ انکی لڑکیاں اور لڑکے اٹھاکر لے جاتے۔ پولیس اور وڈیرے مچھیروں کی عورتوں پر ایسا ظلم کرتے جسیا پھولن دیوی پر بننے والی فلم ’بینڈیٹ کوئین‘ میں ہے۔ اگرچہ کچھ میر بحر بھی جاکر ڈاکو بنے۔ گر میربحروں کے قبیلے سے سندھ کے وزیر اعلٰی ، سی ایس ایس افسر، اساتذہ، سیاسی اور سماجی کارکن بھی بنے ہیں۔ ان میں مقابلے کے امتحان میں پوزیشن لینے والا اب لاڑکانہ کا ڈی پی اور سائیں رکھیو میرانی بھی ہے تو آفتاب شعبان میرانی بھی۔
اگر یہ بات زیادہ اسٹیریو ٹائيپ نہں ھے تو مہنی کے چلنے کا انداز ممبئی فیشن شو کی، بقول ھمارے ایک دوست کے ، کیٹ واک کو بھی شرما جائے۔
اب تو سندھو میں اتنی مچھلی بھی اسکے جال میں نہں آتی جو شام کو وہ اپنے بچوں کیلیے آٹا اور اپنے لیے چرس لیکر گھر کو لوٹے۔ میرے ایک اور دوست نے ایسے مہانے کو ’کھل نائیک‘ کا نام دیا مگر سب سے بڑے کھل نائیک تو وہ رینجرز والے ہیں جنکو حال ہی میں سندھ میں دریا پر مچھلی کے ٹھیکے دیئے گئے۔ اس سے پہلے ایسے ٹھیکے زرداریوں کو دیئے گئے تھے۔
سندھو کے کناروں پر زندگی کبھی ایسی تھی اور ہے جیسے امریکی جنوب میں مسسی سپی پر۔ میں ایک دفعہ مسی سپی کو دیکھ کر سندھو کی پانیوں کو یاد کرکے رو دیا تھا:
’شاہ جو دریا تھا قید ہے کیا گیا اور اسی کی موج موج فوج نے فنا ھے کی‘،
میں نے اس دن اپنی ایک نظم میں لکھا تھا۔ اسی دریا کو ’دادلا‘ یعنی لاڈلا بھی کہا گیا لیکن جب سے اس نے سوہنی ڈبوئی شاہ لطیف بھٹائی نے اسے ’دھشتگرد‘ بھی کہا۔ شاہ لطیف نے اپنے سُر سوھنی میں ایک شعر میں کہا
’دریا ! میں قیامت کے دن تجھ پر فریاد کروں گا کہ کسطرح تونے میرا بازو (سوھنی ) ڈبو دیا‘۔ سندھی عورت کو بازو کہتے ہیں اور بہت سے اسکو ’ کاری‘ بھی کرتے ہیں!
لیکن سندھو اور سندھیوں سے بھی زیادہ جو چیز مظلوم ہے وہ سندھو میں ’ڈولفن‘ مچھلی ہے۔ اب نہیں معلوم کہ پورے سندھو میں اب کتنی ڈولفن جاکر بچی ہے لیکن چند سال قبل تک اسکی تعداد شاید پچاس بھی نہیں ہوگي۔ جامشورو سے کشمور تک انڈس ڈولفن اندھی ڈولفن یا عام طور پر ’بلھن‘ کہلانے والی مچھلی سے لوگوں نے دشمنی، دوستی اور اسکینڈلز وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ مظہر زیدی اور فرجاد نبی کو یاد ہوگا کہ ہم نے کیسے ٹھٹہ ضلعے کے بنوں میں دریائے سندھ میں کشتی کھیتے بڑی عمر کی مچھیروں سے انکی جوانی میں ڈولفن پر ’جنسی مہم جوئی‘ کے قصے سنے تھے۔ لوگوں میں ایک متھ یہ بنی ہوئی ہے کہ ’بلھن‘ کے جسم کے نچلے حصے سے اپنی کسی جنسی پارٹنر کی طرح سیکس کر سکتے ہیں۔ ’بلہن کو مارتے ھیں کیونکہ وہ ایک نجس مخلوق ھے‘ ایک مولوی ٹائیپ ملاح نے کہا۔
ڈولفن کے ساتھ اب تو اچھی خاصی تعداد میں سندھ کی پلا مچھلی بھی کمیاب ہوتی جارہی ہے۔ سندھو ندی کے میٹھے پانی میں پیدا ہونیوالی یہ پلہ مچھلی اب بیراجوں ، مشینریوں اور پلاسٹک کی جال سے مرنے لگی ہے۔ اسی پلے کیلیے کہتے تھے کہ یہ کوٹری اپ سٹریم سے ڈاؤن سٹریم کی طرف سکھر تک اپنا سفر طے کرکے بزرگ ’صدر الدین شاہ بادشاہ‘ کی درگاہ کی سلامی بھرنے آتی ہے۔
اب وہ سندھو کی لہروں کے تھپیڑے کھاتا ھوا ’فتح مبارک‘ نامی جہاز کا ڈھانچہ بھی کوٹری کے پاس ریت میں ریت بنا جس پر چڑھ کر چارلس نیپیئر نے سندھ فتح کرنے کا گناہ کیا تھا۔ اسکے جہاز کو اسی سندھ کی فتح سے منسوب ’فتح مبارک‘ کا نام دیا گیا۔ چارلس نیپیئر نے ملکہ برطانیہ کو سندھ فتح کرنے کا جو پیغام بھیجا تھا، اس میں اس نے اطالوی زبان میں یہ ذو معنی جملہ لکھا تھا جسکا مؤرخ کہتے ہیں ترجمہ کچھ یوں تھا :
’آئی ھیو سِنڈ‘ (’میں نےگناہ کیا ھے یا سندھ میرے قبضے میں ہے۔
سندھ فتح کرنا انگریز حکمرانوں کی فرسٹریشن تھی۔ انیسویں صدی میں جب افغانستان میں جنگجو پٹھانوں کے ھاتھوں انکی فوجوں کے کشتوں کے پشتے لگنے لگے تو انھوں نے اپنی جھینپ اور تشفی کے لیے سندھ فتح کرنے کی ٹھانی۔ اس سندھ کے تاریخی گنہگار (چارلس نیپیئر) نے جو سب سے اچھا کام کیا وہ سندھ میں عورتوں کو’ کاری‘ قرار دیکر قتل کرنے کے خلاف سخت سزاؤں کا اعلان تھا۔ سندھیوں نے کہا چارلس نیپئیر کے آنے سے بہت سوں کے ازار بند سے تلوار کا خوف ختم ھوا مگر اب یہ چارلس نیپير دیسی یا ولایتی کی دیسی اولادیں ہیں جو ہر روز وشب سندھ فتح کرنے کا گناہ کرتے ہیں۔ کل میں نے ایک سندھی اخبار میں کسی بزرگ کالم نگار کا نقل کیا ھوا شعر پڑھ رھا تھا:
’ڈیم بنانے والے مجھ کو اتنا تو بتا،ڈھاکہ میں ھم کتنے پانی ہار گئے‘۔
سندھو ندی میں پانی کے شدید قلت اور ڈاؤن اسٹریم میں میٹھے پانی کی مطلوبہ مقدار نہ چھوڑے جانے کی وجہ سے زمینوں اور دریا کی طرف سمندر آنے لگا ھے۔ ہزاروں مچھیرے اور کاشتکار ملک کے دوسرے حصوں میں نقل مکانی کرکے گئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے مچھیرے تو ایران افغانستان کے سرحدوں پر تافتان کی جھیلوں تک بھی چلے گئے ہیں۔ کوٹری سے یہانتک کہ کیٹی بندر میں اب مچھیرے مچھلی پکڑنے کے بجائے سانپ پکڑ کر گزارہ کرنے لگے ہیں۔ کیٹی بندر، جسکی یونین کاؤنسل کبھی اتنی امیر تھی کہ اس نے کراچي میونسپلٹی کو اپنا خسارہ پورا کرنے کیلیے قرضہ دیا تھا۔
کوٹری سے یہانتک کہ کیٹی بندر میں اب مچھیرے مچھلی پکڑنے کے بجائے سانپ پکڑ کر گزارہ کرنے لگے ہیں۔ کیٹی بندر، جسکی یونین کاؤنسل کبھی اتنی امیر تھی کہ اس نے کراچي میونسپلٹی کو اپنا خسارہ پورا کرنے کیلیے قرضہ دیا تھا۔
کیا آپ نے کیٹی بندر پر شام میں اترتی کونجوں اور سورج ڈھلنے کا نظارہ کیا ہے؟
یہاں سے تھوڑی دور سندھو دریا کا ملن سمندر سے ہوتا ہے۔ کھارو چھان پر یہ بنارس کی صبحوں اور اودھ کی شاموں کو بھی شرمادیں۔ یہیں پر ایک شام میں نے کہا تھا:
’روپہلی شام سندھو پر اترے اسطرح جیسے وحی اترے محمد پر‘۔
کوٹری سے کھارو چھان تک مچھلی کی تقریبًا ایک سو میانیاں یا ھاربر بند ھوئے ہیں۔ بدین میں شیخانی گھاڑی اور دوسرے علاقوں میں مچھلی کے ٹھیکے حکومت نے رینجرز کو عطا کیے، سندھو کی ڈیلٹائی علاقوں میں وہ جنہیں ’نارے کا نواب‘ کہا جاتا تھا اور جو ساٹھ اور سو ایکڑ زمین کے مالک ہوا کرتے تھے، اب جلانے کی لکڑیاں بیچ کر گزارہ کرنے لگے ہیں۔ کہتے ھیں کہ سمندری پانی آنے کی وجہ سے بدین میں دودو سومرو اور اسکے ساتھیوں کے مزار اور اسکی تخت گاہ ’روپاہ ماڑی‘ بھی خطرے سے خالی نہیں۔ سندء میں علاؤالدین خلجی کے ساتھ جنگ کرکے مرجانے والے دودو سومرو کو وہ اھمیت ھے جو جنوبی ہندوستان میں ٹیپو سلطان کی ہے۔ دودو سومرو کی موت کے بعد صدیوں تک اسکے سوگ میں خانہ بدوش ریباری لوگ سیاہ پوش بنے۔ ریباری تھر اور راجھستان میں آج بھی ملتے ہیں اور ڈھٹ اور بھٹ فقیر دودو سومرو اور اسکے لشکر کی بہادری کے رزمیہ قصے گاتے ہیں۔
سندھو میں موت سے بھی سندھ کے بہت سے پڑھے لکھے لوگوں نے رومانس کیا ہے۔ بقول شخصے جو بھی سندھی دانشور یا شاعر گھر سے ناراض ہو وہ سندھو ندی میں خودکشی کرلیتا ھے۔یہ کہنا زیادہ مبالغہ خیز نہیں ہوگا کہ جامشورو پل کا ایکتالیسواں دروازہ یا المظر ہوٹل زندگی سے بغاوت کرنے والے اہل ھوش و خرد سندھیوں کی آتم ھتیا کا سٹیشن بن چکا ہے بالکل ایسے جیسے ہندی شاعر ودیا پتی کی منزل ہندوستنانی دریا ٹہرا تھا۔
انیس سو سڑسٹھ میں جامشورو سے بہت ہی بڑے سکالر اور سندھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر علامہ آئي آئي قاضی نے خود کو سندھو کی لہروں کے حوالے کرکے خودکشی کی۔ نوجوان سندھی شاعر ماٹیہنو اوٹھو نے بھی اسی جگہ پر خود کشی کی۔ پھر پڑھے لکھے نوجون احمد علی ڈاھر نے یہی کیا اور چار آگست انیس سو اکانوے کو نوجوان شاعر اور خوبرو قوم پرست کارکن عرفان مہدی نے:
’دریا آج تکا کرتا ھے لہروں کو، کشتی کھینے والا لڑکا ڈوب گیا‘۔
جامشورو میں خودکشی یا خود کشی کرنے کی کوشش کرنیوالوں میں نوجوان لڑکوں اور خاص طور لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو گمنام ہوتی ہیں۔
بشکریہ: بی بی سی