در خانہ اگر کَس است، یک حرف بَس است

الف نظامی

لائبریرین
🌸

در خانہ اگر کَس است، یک حرف بَس است
(معین نظامی)

یہ موزوں فارسی جملہ یا صنفِ رباعی کے مخصوص اوزان میں سے ایک وزن کا مصرع بہت قدیم کہاوتوں میں سے ہے. سب سے پہلے یہ الفاظ کس نے کہے یا لکھے؟ یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا. ان کے خالق کا حتمی تعین بھی ان بہت سے ادبی مسائل میں سے ہے جو شاید ہی حل ہو پاتے ہوں.

یہ پُرمغز کہاوت اخلاقی اورعرفانی شعر و ادب میں بہت مقبول ہے. اس کا لفظی مطلب یہ ہے: گھر میں اگر کوئی معقول شخص ہے تو اس کے لیے ایک ہی حرف، ایک ہی بات کافی ہے. یعنی اگر کوئی شخص باشعور، با ذوق اور نکتہ شناس ہے تو اسے ایک بار ہی کچھ کہہ دینا کافی ہو جاتا ہے، بار بار دُہرانے کی ضرورت نہیں پڑتی، لمبی چوڑی بات کی احتیاج بھی نہیں ہوتی، ہلکا سا اشارہ یا مختصر سی بات ہی مفید ثابت ہو جاتی ہے، اچھا اثر ڈالتی ہے اور اس کی طبیعت میں پختہ اور مزاج و عمل میں راسخ ہو جاتی ہے.

ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس ضرب المَثَل میں "حرف" کی جگہ "نکتہ" ہے جسے بعض اوقات "نقطہ"بھی لکھا جاتا ہے. نکتہ ہو یا نقطہ، دونوں ہی درست ہو سکتے ہیں البتہ یہ روایت شاذ ہے اور پہلی صورت ہی سب سے زیادہ مقبول اور رائج ہے. شاذ روایتوں کو پسند کرنے اور بہت دو ٹوک انداز میں انھی کو درست قرار دینے والے افراد اسے بہ خوشی اختیار کر سکتے ہیں.

اس قدیم مصرعے کو مختلف ادوار کے کئی فارسی شعرا نے اپنے طور پرتضمین کیا ہے، زیادہ تر رباعی ہی کی صنف میں. ظاہر ہے کہ قدیم دور میں تضمینی مصرعوں کو واوَین میں لکھنے یا عام متن سے قدرے موٹا لکھنے کی امتیازی نشانی موجود نہیں تھی. سو اس کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا. بہت معروف اقوال، اشعار یا مصرعوں کو تضمین کرتے ہوئے انھیں نمایاں کرنے کا التزام اس لیے بھی نہیں کیا جاتا تھا کہ یہ تو پہلے ہی مشہورِ عام ہیں اور لوگ بہ آسانی جان لیں گے کہ انھیں کس استادانہ عمدگی سے تضمین کیا گیا ہے. اس روش پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا تھا.

ایک مشہور اور بہت اعلیٰ رباعی جس میں یہ مصرع چوتھے مصرعے کے طور پر تضمین کیا گیا ہے، درجِ ذیل ہے:

دل گفت مرا علمِ لَدُنّی ہوَس است
تعلیمم کن، اگر ترا دسترس است
گفتم کہ الِف، گفت دگر؟ گفتم ہیچ
" در خانہ اگر کس است، یک حرف بس است"

دل نے مجھے کہا کہ مجھے علمِ لدنی حاصل کرنے کا بہت شوق ہے، اگر آپ اس سے بہرہ ور ہیں تو مجھے بھی تعلیم فرمائیے. مَیں نے کہا: الِف. اس نے کہا: کچھ اور؟ مَیں نے کہا: مزید کچھ نہیں. (کیوں کہ جیسا کہ کہا جاتا ہے) گھر میں اگر کوئی نکتہ شناس ہے تو پھر ایک حرف ہی کافی ہے.

الِف کا معنی خیز اشارہ اور استعارہ بہ جائے خود فارسی اور دیگر مشرقی زبانوں مثلاً پنجابی کے صوفیانہ شعر و ادب میں بہت رائج ہے اور ایسے بیسیوں اچھے اشعار مل جاتے ہیں جن میں اسے خوش اسلوبی اور دل ربائی سے برتا گیا ہے.

مندرجہ بالا رباعی کے متن میں بعض جُزوی اختلافات بھی ملتے ہیں جن سے مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا. ایسے متنی اختلافات بھی پرانے شعر و ادب میں معمول کی بات ہیں. ایسی صورتِ حال میں عموماََ متن کی وہ روایت اختیار کر لی جاتی ہے جو زیادہ معروف یا کسی زوردار قرینے کی بنا پر قرینِ صحّت ہو.

یہ رباعی بھی فارسی کی ان بلامبالغہ سیکڑوں رباعیوں میں سے ہے جن کے اصلی شاعروں کے نام یقینی طور پر معلوم نہیں ہیں اور وہ بہ یک وقت بہت سے شاعروں سے منسوب کی جاتی ہیں بلکہ مختلف شعرا کے دواوین میں بھی موجود ہوتی ہیں. ایرانی محققین اور اہلِ ادب ایسی رباعیات کو رباعیاتِ آوارہ اور رباعیاتِ سرگردان وغیرہ کا اصطلاحی نام دیتے ہیں. اہلِ نظر سے یہ حقیقت بھی مخفی نہیں ہے.

مذکورہ رباعی کا حال بھی یہی معلوم ہوتا ہے. یہ زیادہ تر تو حضرت مولانا نورالدین عبدالرحمان جامی سے منسوب کی جاتی ہے لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ چار پانچ دوسرے شعرا کے یہاں بھی موجود ملتی ہے.
اس طویل بحث کا لُبِّ لُباب یہ ہے کہ :
* عنوان میں دیا گیا مصرع نجانے کس شاعر کا ہے.
* اسے کئی شاعروں نے تضمین کیا ہے اور بہت سے شاعروں سے منسوب ہے.
* مولانا جامی سے منسوب خوب صورت اور کاملانہ رباعی ضروری نہیں کہ انھی کی ہو. فی الحال دست یاب منابع کی روشنی میں حضرتِ جامی سے اس کی نسبت کا نہ قطعی اقرار کیا جا سکتا ہے، نہ انکار اور نہ دونوں میں سے کسی ایک صورت پر اصرار.
* لفظی و معنوی استحکام کی بنیاد پر یہ قطعی طور پہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ استادانہ رباعی کسی بڑے صوفی یا مفکر شاعر کا نتیجۂ فکر ہے، کسی معمولی شاعر کا کلام نہیں ہے.

معین نظامی
٢٣- دسمبر ٢٠٢۴ء
 
Top