تعارف
از
ڈاکٹر سید معین الرحمان
دستنبو پہلی بار نومبر 1858میں شائع ہوئی۔ یہ فارسیِ قدیم میں تھی اور فارسی بھی وہ فارسیِ قدیم جس کا اس زمانے میں پارس کے بلاد میں بھی نشان نہیں رہا تھا، ہندوستان کا تو کیا مذکور غالب نے بہ طریق لزوم مالایلزم اس کا التزام کیا تھا کہ بہ زبان فارسیِ قدیم، جو دساتیر کی زبان ہے اس میں یہ نسخہ لکھا جاوے اور سوائے اسماء کے کہ وہ نہیں بدلے جاتے، کوئی لغتِ عربی اس میں نہ آوے۔ اس لیے "دستنبو" کا اردو ترجمہ کرنا بڑا کٹھن اور دشوار گزار کام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کی اشاعت اور غالب کے انتقال کے پچاس برس بعد تک کسی کو اس "جرِ ثقیل" کتاب کا اردو ترجمہ کرنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ اب سے نصف صدی پہلے خواجہ حسن نظامی کی فرمائش پر میرزا محمد یعقوب بیگ نامی ایم اے نے پہلی بار اس مشکل کام کو ہاتھ میں لیا۔ ان کا ترجمہ 1920میں خواجہ حسن نظامی کی تالیف "میرزا غالب کا روزنامچہ" کے ساتھ شائع ہوا۔ خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ:
"دستنبو" کا ترجمہ آسان نہ تھا، کیوں کہ وہ نہایت سخت فارسی میں ہے مگر نامی صاحب نے دو دن کے اندر اتنے مشکل کام کو آسان کرکے دے دیا"۔ (روزنامچہ طبع سوم ص 59) "غالب کی سخت اور مشکل فارسی عبارت جس کو عربی الفاظ سے دانستہ محفوظ رکھنے کی کوشش کی گئی تھی، ایسا عام فہم او صحیح ترجمہ کیا گیا ہے کہ تعجب ہوتاہے"۔
(روزنامچہ طبع سوم ص 72)
میرزا محمد یعقوب بیگ نامی کا ترجمہ، اس میں شبہ نہیں کہ بہت عمدہ ہے لیکن یہ پوری کتاب کا نہیں، اس کے صرف جستہ جستہ حصوں کا اردو ترجمہ ہے، اسی لیے یہ صرف گیارہ صفحات کو محیط ہے۔ (طبع سوم ص۔ 71-60)
1961ء میں دستنبو کے دو الگ کلی تراجم سامنے آئے۔ ایک ترجمہ رسالہ تحریک دہلی، اپریل مئی 1961ء (ص 73-53) میں چھپا تھا۔ یہ ترجمہ مخمور سعیدی کا ہے۔ دوسرا ترجمہ رسالہ اردوئے معلی دہلی جلد دوم شمارہ 3,2 بابت فروری 1961ء (ص 232-177) شائع ہوا۔ یہ ترجمہ رشید حسن خاں صاحب کا کیا ہوا ہے۔ یہی ترجمہ ضروری حواشی کے ساتھ اس کتاب میں پیش کیا جارہا ہے۔ حواشی میرے لکھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر سید معین الرحمن
-------------------------------------------------------------------------------------------------------
پوری کتاب وکا وکی پر ملاحظہ کریں۔ ربط یہ ہے:
دست۔ن۔۔۔ب۔۔و