ابن رضا
لائبریرین
زندگی روز نیا مجھ سے تماشا مانگے
اِک تہی دامن و بے حال سےکیا کیا مانگے
دوست کرتے ہیں اِسے موجِ سمندر کے سپرد
کشتیِ دل ہے کہ ہر آن کنارہ مانگے
مدتیں بیت گئیں ہیں مجھے آزاد ہوئے
حیف یہ خُوئے اَسیری ہے کہ آقا مانگے
مجھ سا نادار نہیں جاتا ہے اس خوف سے گھر
طفل بھوکا نہ کہیں پھر سے نوالہ مانگے
عدل اتنا نہیں ارزاں ہے کہ بے دام ملے
جب ہی منصف کا ارادہ ہے کہ تحفہ مانگے
ایک مدت سے ہے ویران صنم خانہِ دل
دستِ آزر وہی پتھر، وہی تیشہ مانگے
آخری تدوین: