دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
شورشِ زنجیر بسم اللہ

ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ
درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جُنوں والے
دریدہ دامنوں والے ،پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ
گنو سب داغ دل کے ، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سرِ دربار پُرسش ہورہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالۂ شب گیر بسم اللہ
ستم کی داستاں ، کُشتہ دلوں کا ماجرا کہیے
جو زیر لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہیے
مُصرِ ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہیے
لگی ہے حرفِ نا گُفتہ پر اب تعزیر بِسم اللہ
سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بِسم اللہ
ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ


لاہورجیل
جنوری 1959
 

فرخ منظور

لائبریرین
آج بازار میں پابجولاں چلو

چشمِ نم ، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
دست افشاں چلو ، مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو ، خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
حاکم شہر بھی ، مجمعِ عام بھی
تیرِ الزام بھی ، سنگِ دشنام بھی
صبحِ ناشاد بھی ، روزِ ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یار چلو


لاہورجیل
11 فروری 1959
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ جفائے غم کا چارہ ، وہ نَجات دل کا عالم
ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم
دل و جاں فدائے راہے کبھی آکے دیکھ ہمدم
سرِ کوئے دل فگاراں شبِ آرزو کا عالم
تری دِید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں
وہ چمن جہاں گِری ہے ترے گیسوؤں کی شبنم
یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں
نہ ہُوا کہ مَرمِٹیں ہم ، نہ ہُوا کہ جی اُٹھیں ہم
لو سُنی گئی ہماری ، یُوں پِھرے ہیں دن کہ پھر سے
وہی گوشۂ قفس ہے ، وہی فصلِ گُل کا ماتم


لاہورجیل
فروری، 1959
 

فرخ منظور

لائبریرین
قیدِ تنہائی

دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر
خواب ہی خواب میں بیدار ہُوا درد کا شہر
خواب ہی خواب میں بیتاب نظر ہونے لگی
عدم آبادِ جُدائی میں سحر ہونے لگی
کاسۂ دل میں بھری اپنی صبُوحی میں نے
گھول کر تلخی دیروز میں اِمروز کا زہر
دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر
آنکھ سے دُور کسی صبح کی تمہید لیے
کوئی نغمہ ، کوئی خوشبو ، کوئی کافر صورت
بے خبر گزری ، پریشانیِ اُمیّد لیے
گھول کر تلخیِ دیروز میں اِمروز کا زہر
حسرتِ روزِ ملاقات رقم کی میں نے
دیس پردیس کے یارانِ قدح خوار کے نام
حُسنِ آفاق ، جمالِ لب و رخسار کے نام


زندانِ قلعۂ لاہور
مارچ 1959
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عُمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں

دامن میں ہے مشتِ خاکِ جِگر ، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مَے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا ، لو جام اُلٹائے دیتے ہیں



قلعہ لاہور
مارچ 1959
 

فرخ منظور

لائبریرین
زندگی

ملکۂ شہرِ زندگی تیرا
شُکر کسِ طور سے ادا کیجے
دولتِ دل کا کچھ شمار نہیں
تنگ دستی کا کیا گلہ کیجے
جو ترے حُسن کے فقیر ہوئے
ان کو تشویشِ روزگار کہاں؟
درد بیچیں گے گیت گائیں گے
اِس سے خوش وقت کاروبارکہاں؟
جام چھلکا توجم گئی محفل
مِنّت لُطفِ غم گسار کسے؟
اشک ٹپکا تو کِھل گیا گلشن
رنجِ کم ظرفیِ بہار کسے؟
خوش نشیں ہیں کہ چشم و دل کی مراد
دَیر میں ہے نہ خانقاہ میں ہے
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
ہر صنم اپنی بارگاہ میں ہے
کون ایسا غنی ہے جس سے کوئی
نقدِ شمس و قمر کی بات کرے
جس کو شوقِ نبرد ہو ہم سے
جائے تسخیرِ کائنات کرے


جون 59
 

فرخ منظور

لائبریرین
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب ، سرِ رہگزار چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شبِ انتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر مرے غم گسار چلے گئے
نہ سوالِ وصل ، نہ عرضِ غم ، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے
نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے


جولائی 1959
 

فرخ منظور

لائبریرین
آگئی فصلِ سکُوں چاک گریباں والو
سِل گئے ہونٹ ، کوئی زخم سِلے یا نہ سِلے
دوستوں بزم سجاؤ کہ بہار آئی ہے
کِھل گئے زخم ، کوئی پھول کِھلے یا نہ کِھلے


اپریل 1962
 

فرخ منظور

لائبریرین
ڈھلتی ہے موجِ مَے کی طرح رات ان دِنوں
کِھلتی ہے صبح گل کی طرح رنگ و بُو سے پُر
ویراں ہیں جام پاس کرو کچھ بہار کا
دل آرزو سے پُر کرو، آنکھیں لُہو سے پُر
 

فرخ منظور

لائبریرین
کب ٹھہرے گا درد اے دل ، کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے ، سنتے تھے سحر ہوگی
کب جان لہو ہوگی ، کب اشک گہر ہوگا
کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہوگی
کب مہکے گی فصلِ گل ، کب بہکے گا میخانہ
کب صبحِ سخن ہوگی ، کب شامِ نظر ہوگی
واعظ ہے نہ زاہد ہے ، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہوگی
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ
کب حشر معیّن ہے تجھ کو تو خبر ہوگی
 

فرخ منظور

لائبریرین
دو مرثیے
(۱)​
ملاقات مری

ساری دیوار سیہ ہوگئی تا حلقۂ دام
راستے بجھ گئے رُخصت ہُوئے رہ گیر تمام
اپنی تنہائی سے گویا ہوئی پھر رات مری
ہو نہ ہو آج پھر آئی ہے ملاقات مری
اک ہتھیلی پہ حِنا ، ایک ہتھیلی پہ لُہو
اک نظر زہر لئے ایک نظر میں دارو
دیر سے منزلِ دل میں کوئی آیا نہ گیا
فرقتِ درد میں بے آب ہُوا تختۂ داغ
کس سے کہیے کہ بھرے رنگ سے زخموں کے ایاغ
اور پھر خود ہی چلی آئی ملاقات مری
آشنا موت جو دشمن بھی ہے غم خوار بھی ہے
وہ جو ہم لوگوں کی قاتل بھی ہے دلدار بھی ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
[FONT=Urdu Naskh Asiatype,Andale Mono](۲)[/FONT]​
[FONT=Urdu Naskh Asiatype,Andale Mono]ختم ہوئی بارشِ سنگ[/FONT]

ناگہاں آج مرے تارِ نظر سے کٹ کر
ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر
اب کسی سَمت اندھیرا نہ اُجالا ہوگا
بُجھ گئی دل کی طرح راہِ وفا میرے بعد
دوستو! قافلۂ درد کا اب کیا ہوگا
اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم
دوستو ختم ہوئی دیدۂ تر کی شبنم
تھم گیا شورِ جنوں ختم ہوئی بارشِ سنگ
خاکِ رہ آج لئے ہے لبِ دلدار کا رنگ
کُوئے جاناں میں کُھلا میرے لہو کا پرچم
دیکھئے دیتے ہیں کِس کِس کو صدا میرے بعد
’’کون ہوتا ہے حریفِ مَے مرد افگنِ عشق
ہے مکرّر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد‘‘
 

فرخ منظور

لائبریرین
ان دنوں رسم و رہِ شہرِ نگاراں کیا ہے
قاصدا ، قیمتِ گلگشتِ بہاراں کیا ہے
کُوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ میخانہ ہے
آج کل صورتِ بربادیِ یاراں کیا ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
آج یوں موج در موج غم تھم گیا، اس طرح غم زدوں کو قرار آگیا
جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آگئی، جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا
جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم، رُو بُرو پھر سرِ رہگزار آگیا
صبحِ فردا کو پھر دل ترسنے لگا ، عمرِ رفتہ ترا اعتبار آگیا
رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا ، رنگِ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں
زخم چھلکا کوئی یا کوئی گُل کِھلا ، اشک اُمڈے کہ ابرِ بہار آگیا
خونِ عُشاق سے جام بھرنے لگے ، دل سُلگنے لگے ، داغ جلنے لگے
محفلِ درد پھر رنگ پر آگئی ، پھر شبِ آرزُو پر نکھار آگیا
سر فروشی کے انداز بدلے گئے ، دعوتِ قتل پر مقتل شہر میں
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آگیا ، لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آگیا
فیض کیا جانیے یار کس آس پر ، منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر
میکشوں پر ہُوا محتسب مہرباں ، دل فگاروں پہ قاتل کو پیار آگیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
کہاں جاؤ گے

اور کچھ دیر میں لُٹ جائے گا ہر بام پہ چاند
عکس کھو جائیں گے آئینے ترس جائیں گے
عرش کے دیدۂ نمناک سے باری باری
سب ستارے سرِ خاشاک برس جائیں گے
آس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں
اپنی تنہائی سمیٹے گا ، بچھائے گا کوئی
بے وفائی کی گھڑی ، ترکِ مدارات کا وقت
اس گھڑی اپنے سوا یاد نہ آئے گا کوئی!
ترکِ دنیا کا سماں ، ختمِ ملاقات کا وقت
اِس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے
اِس گھڑی کوئی کسی کا بھی نہیں ، رہنے دو
کوئی اس وقت ملے گا ہی نہیں رہنے دو
اور ملے گا بھی تو اس طور کہ پچھتاؤ گے
اس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے

اور کچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ پھر نشترِ صبح
زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے
اور ہر کشتۂ واماندگیِ آخرِ شب
بھول کر ساعتِ درماندگی آخرِ شب
جان پہچان ملاقات پہ اصرار کرے


دسمبر 1961
 

فرخ منظور

لائبریرین
یک بیک شورشِ فغاں کی طرح
فصلِ گُل آئی امتحاں کی طرح
صحنِ گلشن میں بہرِ مشتاقاں
ہر روش کِھنچ گئی کماں کی طرح
پھر لہو سے ہر ایک کاسۂ داغ
پُر ہُوا جامِ ارغواں کی طرح
یاد آیا جنُونِ گُم گشتہ
بے طلب قرضِ دوستاں کی طرح
جانے کس پر ہو مہرباں قاتِل
بے سبب مرگِ ناگہاں کی طرح
ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو زباں کی طرح


مئی 1962
 

فرخ منظور

لائبریرین
شہرِ یاراں

آسماں کی گود میں دم توڑتا ہے طفل ابر
جم رہا ہے ابر کے ہونٹوں پہ خوں آلود کف
بُجھتے بُجھتے بُجھ گئی ہے عرش کے حُجروں میں آگ
دھیرے دھیرے بِچھ رہی ہے ماتمی تاروں کی صف
اے صبا شاید ترے ہمراہ یہ خونناک شام
سر جھکائے جارہی ہے شہرِ یاراں کی طرف
شہر یاراں جس میں اِس دم ڈھونڈتی پھرتی ہے موت
شیر دل بانکوں میں اپنے تیر و نشتر کے ہدف
اِک طرف بجتی ہیں جوشِ زیست کی شہنائیاں
اِک طرف چنگھاڑتے ہیں اہرمن کے طبل و دف
جاکے کہنا اے صبا ، بعد از سلامِ دوستی
آج شب جس دم گُزر ہو شہرِ یاراں کی طرف
دشتِ شب میں اس گھڑی چپ چاپ ہے شاید رواں
ساقیِ صبحِ طرب ، نغمہ بلب ، ساغر بکف
وہ پہنچ جائے تو ہوگی پھر سے برپا انجمن
اور ترتیبِ مقام و منصب و جاہ و شرف
 

فرخ منظور

لائبریرین
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوادیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹادیا
مرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دُشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چُکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلادیا
اُدھر ایک حرف کہ کُشتنی، یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو سُن کے اُڑا دیا، جو لکھا تو پڑھ کے مٹادیا
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم ، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
خوشا ضمانتِ غم

دیارِ یار تری جوششِ جنوں پہ سلام
مرے وطن ترے دامانِ تار تار کی خیر
رہِ یقین افشانِ خاک و خوں پہ سلام
مرے چمن ترے زخموں کے لالہ زار کی خیر
ہر ایک خانۂ ویراں کی تیرگی پہ سلام
ہر ایک خاک بسر، خانماں خراب کی خیر
ہر ایک کشتۂ ناحق کی خامشی پہ سلام
ہر ایک دیدۂ پُرنم کی آب و تاب کی خیر
رواں رہے یہ روایت ، خوشا ضمانتِ غم
نشاطِ ختمِ غمِ کائنات سے پہلے
ہر اک کے ساتھ رہے دولتِ امانتِ غم
کوئی نجات نہ پائے نَجات سے پہلے
سکوں ملے نہ کبھی تیرے پافگاروں کو
جمالِ خونِ سرِ خار کو نظر نہ لگے
اماں ملے نہ کہیں تیرے جاں نثاروں
جلالِ فرقِ سرِ دار کو نظر نہ لگے


لندن 1962
 

فرخ منظور

لائبریرین
جب تیری سمندر آنکھوں میں

(گیت)
یہ دُھوپ کنارا، شام ڈھلے
مِلتے ہیں دونوں وقت جہاں
جو رات نہ دن ، جو آج نہ کل
پل بھر کو امر ،پل بھر میں دھواں
اِس دھوپ کنارے، پل دو پل
ہونٹوں کی لپک
باہوں کی چھنک
یہ میل ہمارا ، جھوٹ نہ سچ
کیوں زار کرو، کیوں دوش دھرو
کس کارن، جھوٹی بات کرو
جب تیری سمندر آنکھوں میں
اس شام کا سورج ڈوبے گا
سُکھ سوئیں گے گھر دَر والے
اور راہی اپنی رہ لے گا



(لندن سے)
[FONT=Urdu Naskh Asiatype,Andale Mono]1963
[/FONT]​
 
Top