دستِ صبا(فیض احمد فیض)

(نذرِ سودا)

فکر دلداریء گلزار کروں یا نہ کروں
ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں

قصہء سازشِ اغیار کہوں یانہ کہوں
شکوہء یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں

جانے کیا وضع ہے اب رسمِ وفا کی اے دل
وضعِ دیرینہ پہ اصرار کروں یا نہ کروں

جانے کس رنگ میں تفسیر کریں اہلِ ہوس
مدحِ زلف و لب و رخسار کروں یا نہ کروں

یوں بہار آئی ہے امسال کہ گلشن میں صبا
پوچھتی ہے گزر اس بار کروں یا نہ کروں

گویا اس سوچ میں ہے دل میں لہو بھر کے گلاب
دامن و جیب کو گلنار کروں یا نہ کروں

ہے فقط مرغِ غزلخواں کہ جسے فکر نہیں
معتدل گرمیء گفتار کروں یا نہ کروں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
دو عشق

(١)

تازہ ہیں ابھی یاد میں اے ساقیِ گلفام
وہ عکسِ رخِ یار سے لہکے ہوئے ایام
وہ پھول سی کھلتی ہوئی دیدار کی ساعت
وہ دل سا دھڑکتا ہوا امید کا ہنگام

امید کہ لو جاگا غمِ دل کا نصیبہ
لو شوق کی ترسی ہوئی شب ہو گئی آخر
لو ڈوب گئے درد کے بے خواب ستارے
اب چمکے گا بے صبر نگاہوں کا مقدر


اس بام سے نکلے گا ترے حسن کا خورشید
اُس کنج سے پھوٹے گی کرن رنگِ حنا کی
اس در سے بہے گا تری رفتار کا سیماب
اُس راہ پہ پھولے گی شفق تیری قبا کی

پھر دیکھے ہیں وہ ہجر کے تپتے ہوئے دن بھی
جب فکرِ دل و جاں میں فغاں بھول گئی ہے
ہر شب وہ سیہ بوجھ کہ دل بیٹھ گیا ہے
ہر صبح کی لو تیر سی سینے میں لگی ہے

تنہائی میں کیا کیا نہ تجھے یاد کیا ہے
کیا کیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
آنکھوں سے لگایا ہے کبھی دستِ صبا کو
ڈالی ہیں کبھی گردنِ مہتاب میں باہیں

(٢)

چاہا ہے اسی رنگ سے لیلائے وطن کو
تڑپا ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں
ڈھونڈی ہے یونہی شوق نے آسائشِ منزل
رخسار کے خم میں کبھی کاکل کی شکن میں

اُس جانِ جہاں کو بھی یونہی قلب و نظر نے
ہنس ہنس کے صدا دی، کبھی رو رو کے پکارا
پورے کیے سب حرفِ تمنا کے تقاضے
ہر درد کو اجیالا، ہر اک غم کو سنوارا

واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
خیریتِ جاں، راحتِ تن، صحتِ داماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہلِ ہوس کی

اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پسِ زنداں، کبھی رسوا سرِ بازار
گرجے ہیں بہت شیخ سرِ گوشہء منبر
کڑکے ہیں بہت اہلِ حکم برسرِ دربار

چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اس عشق، نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 


غزل

گرانیِ شبِ ہجراں دو چند کیا کرتے
علاجِ درد ترے درد مند کیا کرتے

وہیں لگی ہے جو نازک مقام تھے دل کے
یہ فرق دستِ عدو کے گزند کیا کرتے

جگہ جگہ پہ تھے ناصح تو کُو بکُو دلبر
اِنہیں پسند، اُنہیں ناپسند کیا کرتے

ہمیں نے روک لیا پنجہء جنوں ورنہ
ہمیں اسیر یہ کوتہ کمند کیا کرتے

جنہیں خبر تھی کہ شرطِ نواگری کیا ہے
وہ خوش نوا گلہء قید و بند کیا کرتے

گلوئے عشق کو دار و رسن پہنچ نہ سکے
تو لوٹ آئے ترے سر بلند ، کیا کرتے !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

غزل

وہیں ہے دل کے قرائن تمام کہتے ہیں
وہ اِک خلش کہ جسے تیرا نام کہتے ہیں

تم آرہے ہو کہ بجتی ہیں میری زنجیریں
نہ جانے کیا مرے دیوار و بام کہتے ہیں

یہی کنارِ فلک کا سیہ تریں گوشہ
یہی ہے مطلعِ ماہِ تمام کہتے ہیں

پیو کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید
گراں ہے اب کے مئے لالہ فام کہتے ہیں

فقیہہِ شہر سے مے کا جواز کیا پوچھیں
کہ چاندنی کو بھی حضرت حرام کہتے ہیں

نوائے مرغ کو کہتے ہیں اب زیانِ چمن
کھلے نہ پھول ، اسے انتظام کہتے ہیں

کہو تو ہم بھی چلیں فیض، اب نہیں سِردار
وہ فرقِ مرتبہء خاص و عام ، کہتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل

رنگ پیرہن کا خوشبو ، زلف لہرانے کا نام
موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

دوستو ، اُس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر
گلستاں کی بات رنگیں ہے، نہ میخانے کا نام

پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اُس بزم میں جانے کا نام

(ق)

دلبری ٹھہرا زبانِ خلق کھلوانے کا نام
اب نہیں لیتے پری رُو زلف بکھرانے کا نام
اب کسی لیلیٰ کو بھی اقرارِ محبوبی نہیں
ان دنوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام

محتسب کی خیر، اونچا ہے اسی کے فیض سے
رند کا ، ساقی کا، مے کا، خُم کا ،پیمانے کانام

ہم سے کہتے ہیں چمن والے، غریبانِ چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

فیض اُن کو ہے تقاضائے وفا ہم سے جنہیں
آشنا کے نام سے پیارا ہے بیگانے کا نام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
نوحہ

مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جانتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب
اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اس میں بچپن تھا مرا، اور مرا عہدِ شباب
اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب
کیا کروں بھائی ، یہ اعزاز میں کیونکر پہنوں
مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیصوں کا حساب
آخری بار ہے، لو مان لو اک یہ بھی سوال
آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب
آکے لے جاو تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

18، جولائی 1952
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ایرانی طلبا کے نام

جو امن اور آزادی کی جدوجہد میں کام آئے

یہ کون سخی ہیں
جن کے لہوکی
اشرفیاں، چھن چھن، چھن چھن،
دھرتی کے پیہم پیاسے
کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں
کشکول کو بھرتی ہیں
یہ کون جواں ہیں ارضِ عجم
یہ لکھ لُٹ
جن کے جسموں کی
بھرپور جوانی کا کندن
یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے
یوں کوچہ کوچہ بکھرا ہے
اے ارضِ عجم، اے ارضِ عجم
کیوں نوچ کے ہنس ہنس پھینک دئے
ان آنکھوں نے اپنے نیلم
ان ہونٹوں نے اپنے مرجاں
ان ہاتوں کی“ بے کل چاندی
کس کام آئی، کس ہاتھ لگی؟“

“اے پوچھنے والے پردیسی!
یہ طفل و جواں
اُس نور کے نورس موتی ہیں
اُس آگ کی کچی کلیاں ہیں
جس میٹھے نور اور کڑوی آگ
سے ظلم کی اندھی رات میں پھوٹا
صبحِ بغاوت کا گلشن
اور صبح ہوئی من من، تن تن
ان جسموں کا چاندی سونا
ان چہروں کے نیلم، مرجاں،
جگ مگ جگ مگ، رُخشاں رُخشاں
جو دیکھنا چاہے پردیسی
پاس آئے دیکھے جی بھر کر
یہ زیست کی رانی کا جھومر
یہ امن کی دیوی کا کنگن!“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

غزل

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں

ایک اک کرکے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں

رقصِ مے تیز کرو، ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں

کچھ ہمیں کو نہیں احسان اُٹھانے کا دماغ
وہ تو جب آتے ہیں، مائل بہ کرم آتے ہیں

اور کچھ دیر نہ گزرے شبِ فرقت سے کہو
دل بھی کم دکھتا ہے، وہ یاد بھی کم آتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اگست1952ء

روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں

اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہِ چمن میں غزلخواں ہوے تو ہیں

ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پَر افشاں ہوے تو ہیں

ان میں لہو جلا ہو ہمارا، کہ جان و دل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں

ہاں کج کرو کلاہ کہ سب کچھ لٹا کے ہم
اب بے نیازِ گردشِ دوراں ہوئے تو ہیں

اہلِ قفس کی صبحِ چمن میں کھلے گی آنکھ
بادِ صبا سے وعدہ و پیماں ہوئے تو ہیں

ہے دشت اب بھی دشت، مگر خونِ پا سے فیض
سیراب چند خارِ مغیلاں ہوئے تو ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
نثار میں تیری گلیوں کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چُرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہلِ دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
*کہ سنگ و خشت مقیّد ہیں اور سگ آزاد

بہت ہے ظلم کہ دستِ بہانہ جُو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسیے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں

بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہو گی
چمک اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
غرض تصورِ شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفتِ سایہء دیوار و در میں جیتے ہیں

یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل بُرا نہیں کرتے

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اَوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں


* سنگ ہارا بستند و سگاں را کشادند (شیخ سعدی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

غزل

اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے

آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمنِ دیں ، راحتِ جاں ٹھہری ہے

ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو آج سرِ کوئے بتاں ٹھہری ہے

ہے وہی عارضِ لیلیٰ ، وہی شیریں کا دہن
نگہِ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھہری ہے

وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی
ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھہری ہے

بکھری اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موجِ شمیم
دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے

دستِ صیاد بھی عاجز ، ہے کفِ گلچیں بھی
بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے

آتے آتے یونہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار
جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے

ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں


موتی ہو کہ شیشہ، جام کہ دُر
جو ٹوٹ گیا، سو ٹوٹ گیا
کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے
جو ٹوٹ گیا ، سو چھوٹ گیا

تم ناحق ٹکڑے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کامسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو

شاید کہ انہی ٹکڑوں میں کہیں
وہ ساغرِ دل ہے جس میں کبھی
صد ناز سے اُترا کرتی تھی
صہبائے غمِ جاناں کی پری

پھر دنیا والوں نے تم سے
یہ ساغر لے کر پھوڑ دیا
جو مے تھی بہادی مٹی میں
مہمان کا شہپر توڑ دیا

یہ رنگیں ریزے ہیں شاید
اُن شوخ بلوریں سپنوں کے
تم مست جوانی میں جن سے
خلوت کو سجایا کرتے تھے

ناداری، دفتر، بھوک اور غم
ان سپنوں سے ٹکراتے رہے
بے رحم تھا چومکھ پتھراو
یہ کانچ کے ڈھانچے کیا کرتے

یا شاید ان ذروں میں کہیں
موتی ہے تمہاری عزت کا
وہ جس سے تمہارے عجز پہ بھی
شمشاد قدوں نے رشک کیا

اس مال کی دھن میں پھرتے تھے
تاجر بھی بہت، رہزن بھی کئی
ہے چورنگر، یاں مفلس کی
گرجان بچی تو آن گئی

یہ ساغر، شیشے، لعل و گہر
سالم ہوں تو قیمت پاتے ہیں
یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوں، تو فقط
چبھتے ہیں، لہو رُلواتے ہیں

تم ناحق شیشے چن چن کر!
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو

یادوں کے گریبانوں کے رفو
پر دل کی گزر کب ہوتی ہے
اک بخیہ اُدھیڑا، ایک سیا
یوں عمر بسر کب ہوتی ہے

اس کارگہِ ہستی میں جہاں
یہ ساغر، شیشے ڈھلتے ہیں
ہر شے کا بدل مل سکتا ہے
سب دامن پُر ہو سکتے ہیں

جو ہاتھ بڑھے ، یاور ہے یہاں
جو آنکھ اُٹھے، وہ بختاور
یاں دھن دولت کا انت نہیں
ہوں گھات میں ڈاکو لاکھ ، مگر

کب لوٹ چھپٹ سے ہستی کی
دوکانیں خالی ہوتی ہیں
یا پربت پربت ہیرے ہیں
یاں ساگر ساگر موتی ہیں

کچھ لوگ ہیں جو اس دولت پر
پردے لٹکائے پھرتے ہیں
ہر پربت کو، ہر ساگر کو
نیلام چڑھاتے پھرتے ہیں

کچھ وہ بھی ہیں جو لڑ بھِڑ کر
یہ پردے نوچ گراتے ہیں
ہستی کے اُٹھائی گیروں کی
ہر چال اُلجھائے جاتے ہیں

ان دونوں میں رَن پڑتا ہے
نِت بستی بستی نگر نگر
ہر بستے گھر کے سینے میں
ہر چلتی راہ کے ماتھے پر

یہ کالک بھرتے پھرتے ہیں
وہ جوت جگاتے رہتے ہیں
یہ آگ لگاتے پھرتے ہیں
وہ آگ بجھاتے رہتے ہیں

سب ساغر، شیشے، لعل و گوہر
اس بازی میں بَد جاتے ہیں
اُٹھو سب خالی ہاتھوں کو
اِس رَن سے بلاوے آتے ہیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل

آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
(ق)
بامِ مینا سے ماہتاب اُترے
دستِ ساقی میں، آفتاب آئے
ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے

عمر کے ہر ورق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے

جل اُٹھے بزم غیر کے دروبام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
(ق)
اس طرح اپنی خامشی گونجی
گویا ہر سمت سے جواب آئے
فیض تھی راہ سربسر منزل
ہم جہاں پہنچے، کامیاب آئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نذرِ غالب

کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں
پھر آج کوئے بتاں کا ارادہ رکھتے ہیں

بہار آئے گی جب آئے گی، یہ شرط نہیں
کہ تشنہ کام رہیں گرچہ بادہ رکھتے ہیں

تری نظر کا گلہ کیا؟ جو ہے گلہ دل کا
تو ہم سے ہے، کہ تمنا زیادہ رکھتے ہیں

نہیں شراب سے رنگیں تو غرقِ خوں ہیں کہ ہم
خیالِ وضعِ قمیص و لبادہ رکھتے ہیں

غمِ جہاں ہو، غمِ یار ہو کہ تیر ستم
جو آئے، آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں

جوابِ واعظِ چابک زباں میں فیض ہمیں
یہی بہت ہیں جو دو حرفِ سادہ رکھتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

غزل

تیری صورت جو دلنشیں کی ہے
آشنا شکل ہر حسیں کی ہے

حسن سے دل لگا کے ہستی کی
ہرگھڑی ہم نے آتشیں کی ہے
صبحِ گل ہو کہ شامِ مے خانہ
مدح اس روئے نازنیں کی ہے

شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں
ہم نے توبہ ابھی نہیں کی ہے

ذکر دوزخ، بیانِ حور و قصور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے

اشک تو کچھ بھی رنگ لا نہ سکے
خوں سے تر آج آستیں کی ہے

کیسے مانیں حرم کے سہل پسند
رسم جو عاشقوں کے دیں کی ہے

فیض اوجِ خیال سے ہم نے
آسماں سندھ کی زمیں کی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

زنداں کی ایک شام

شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں ،محو ہیں بنائے میں
دامنِ آسماں پہ نقش و نگار

شانہء بام پر دمکتا ہے!
مہرباں چاندنی کا دستِ جمیل
خاک میں گھل گئی ہے آبِ نجوم
نور میں گھل گیا ہے عرش کا نیل
سبز گوشوں میں نیلگوں سائے
لہلہاتے ہیں جس طرح دل میں
موجِ دردِ فراقِ یار آئے

دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

زنداں کی ایک صبح

رات باقی تھی ابھی جب سرِ بالیں آکر
چاند نے مجھ سے کہا۔۔۔“جاگ سحر آئی ہے
جاگ اس شب جو مئے خواب ترا حصہ تھی
جام کے لب سے تہ جام اتر آئی ہے“
عکسِ جاناں کو ودع کرکے اُٹھی میری نظر
شب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر
جابجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور
چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر
ڈوبتے، تیرتے، مرجھاتے رہے، کھلتے رہے
رات اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے

صحنِ زنداں میں رفیقوں کے سنہرے چہرے
سطحِ ظلمت سے دمکتے ہوئے ابھرے کم کم
نیند کی اوس نے ان چہروں سے دھو ڈالا تھا
دیس کا درد، فراقِ رخِ محبوب کا غم

دور نوبت ہوئی، پھرنے لگے بیزار قدم
زرد فاقوں کے ستائے ہوئے پہرے والے
اہلِ زنداں کے غضبناک ، خروشاں نالے
جن کی باہوں میں پھرا کرتے ہیں باہیں ڈالے

لذتِ خواب سے مخمور ہوائیں جاگیں
جیل کی زہر بھری چور صدائیں جاگیں
دور دروازہ کھلا کوئی، کوئی بند ہوا
دور مچلی کوئی زنجیر ، مچل کر روئی
دور اُترا کسی تالے کے جگر میں خنجر

سر پٹکنے لگا رہ رہ کے دریچہ کوئی
گویا پھر خواب سے بیدار ہوئے دشمنِ جاں
سنگ و فولاد سے ڈھالے ہوئے جنات ِ گراں
جن کے چنگل میں شب و روز ہیں فریاد کناں
میرے بیکار شب و روز کی نازک پریاں
اپنے شہپور کی رہ دیکھ رہی ہیں یہ اسیر
جس کے ترکش میں ہیں امید کے جلتے ہوئے تیر

(ناتمام)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

یاد

دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے، ترے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں، دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں، ترے پہلو کے سمن اور گلاب

اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدہم مدہم
دورافق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی ہے تری دلدار نظر کی شبنم

اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں، رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل

یادِ غزال چشماں، ذکرِ سمن عذاراں
جب چاہا کر لیا ہے کنجِ قفس بہاراں

آنکھوں میں درد مندی، ہونٹوں پہ عذر خواہی
جانانہ وارآئی شامِ فراقِ یاراں

ناموسِ جان و دل کی بازی لگی تھی ورنہ
آساں نہ تھی کچھ ایسی راہِ وفا شعاراں

مجرم ہو خواہ کوئی، رہتا ہے ناصحوں کا
روئے سخن ہمیشہ سوئے جگر فگاراں

ہے اب بھی وقت زاہد، ترمیمِ زہد کر لے
سوئے حرم چلا ہے انبوہِ بادہ خواراں

شاید قریب پہنچی صبحِ وصال ہمدم
موجِ صبا لیے ہے خوشبوئے خوش کناراں

ہے اپنی کشتِ ویراں، سرسبز اس یقیں سے
آئیں گے اس طرف بھی اک روز ابرو باراں

آئے گی فیض اک دن بادِ بہار لے کر
تسلیمِ مے فروشاں، پیغامِ مے گساراں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل

قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم
سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم

کچھ امتحانِ دستِ جفا کر چکے ہیں ہم
کچھ اُن کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم

اب احتیاط کی کوئی صورت نہیں رہی
قاتل سے رسم و راہ سوا کر چکے ہیں ہم

دیکھیں ہے کون کون، ضرورت نہیں رہی
کوئے ستم میں سب کو خفا کر چکے ہیں ہم

اب اپنا اختیار ہے چاہیں جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم

ان کی نظر میں، کیا کریں پھیکا ہے اب بھی رنگ
جتنا لہو تھا صرفِ قبا کر چکے ہیں ہم

کچھ اپنے دل کی خو کا بھی شکرانہ چاہیے
سو بار اُن کی خُو کا گِلا کر چکے ہیں ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top