دستک

دوست

محفلین
اس پرچے کے لکھنے والے کو کسی بزرگ نے خواب میں آخر بشارت نہیں دی۔ لیکن اسے اپنے رب سے یہ امید ہے کہ اس کام کے بدلے وہ اس کے ساتھ کچھ اچھا کرے گا۔ آپ سے التماس ہے کہ اس پرچے کو چھپوا کر آگے تقسیم کریں۔ فرض کے طور پر، ثواب کے طور پر یا حق سمجھ کر۔
برادران السلام علیکم!
کیا آپ جانتے ہیں؟
آپ کے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کرکے آپ کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے۔
وزیرستان کے بعد سوات میں بھی طالبان مضبوط ہورہے ہیں اور لوگ انھیں اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں۔
جب آپ عید منا رہے تھے تووزیرستان میں پاکستانی فوج کی بمبماری سے متاثر پاکستانی پناہ کی تلاش در در کی ٹھوکریں کھارہے تھے۔
وکلاء اور صحافی سڑکوں پر کیوں پٹ رہے ہیں۔
جب آپ روزی روٹی کی فکر میں مبتلا ہوتے ہیں کچھ سرپھرے اس ملک کے بقاء کے لیے پولیس کے ڈنڈے اور گالیاں کھارہے ہیں۔
معزز جج صاحبان جنھوں نےآمری حکم کے تحت حلف نہ اٹھا کر اپنے آپ سے اپنی روزی روٹی بھی چھین لی اب اپنے گھروں اور نامعلوم مقامات پر مقید ہیں۔
جن سے انصاف کی امید پیدا ہوئی تھی وہ سپوت ہی آپ سے چھین لیے گئے ہیں۔
بلوچستان اور سندھ سے سینکڑوں لوگ اس طرح غائب ہوچکے ہیں کہ ان کی لاشیں بھی نہیں ملیں۔
عدالتیں ان مظلوموں کو ان کے خاندان تک پہنچانے کی جدوجہد کررہی تھیں لیکن ان کی پیش قدمی ایک ظالم نے روک دی۔
ڈرئیے اس وقت سے:
جب یہ آگ آپ کے گھر تک آپہنچے۔
جب آپ کو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے بندوق اٹھانی پڑے۔
جب آپ "اپنے" اپنی ہی فوج کے ہاتھوں مروا کر اس کے خلاف خودکش بمبار بن جائیں۔
جب آپ کا ملک یہ سائبان ٹوٹ کر بکھر جائے۔
جب آپ کے بیٹے، بھائی اور سرتاج کو ایجنسیاں‌ اٹھا کرلے جائیں اور اس کی لاش بھی دستیاب نہ ہو۔
جب امریکہ یہاں اپنی فوجیں یہ کہہ کر اتار دے کہ اس ملک کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔
یاد رکھیے:
جس قوم میں‌انصاف نہیں رہتا وہ قوم بھی مٹ جاتی ہے۔
اور آپ سے انصاف کی آخری امید بھی چھین لی گئی ہے۔
وہ جرات جو ساٹھ سال کے بعد نظام عدل میں پیدا ہوئی تھی فوجی بوٹوں تلے کچل دی گئی ہے۔
آپ کی آنکھوں‌ پر بے خبری کے پردے تان دئیے گئے ہیں لیکن حقائق بہت تلخ ہیں۔
احتجاج کیجیے:
آمریت کے خلاف۔
ظلم کے خلاف۔
انصاف کے لیے۔
اپنے ملک کی بقاء کے لیے۔
اپنے سائبان کے تحفظ کے لیے۔
ان وکلاء کے ساتھ جو جیلوں میں سڑ رہے ہیں، گالیاں اور لاٹھیاں کھا رہے ہیں صرف آپ کے لیے۔۔
یاد رکھیں احتجاج میں‌شامل ہونا آپ کا فرض ہے
اپنی طاقت کے مطابق احتجاج ضرور کیجیے
سڑکوں پر آکر
اپنے احباب کو تبلیغ حق کرکے
اپنے گھر پر سیاہ پرچم لہرا کر
اپے بازہ پر سیاہ پٹی باندھ کر
احساس دلائیے کہ آپ زندہ قوم ہیں
ابھی آپ بے حس نہیں ہوئے۔
ابھی آپ کو پیٹ کی اتنی فکر نہیں پڑی کہ اپنا ملی اور دینی فرض بھول جائیں۔
ابھی آپ میں خودی باقی ہے۔
یاد رکھیں آپ ہی اصل طاقت ہیں۔ اوپر بیٹھے سب ریت کا ڈھیر ہیں جو پھونکوں سے اڑ جائیں گے۔ اٹھیے یہ وقت عمل ہے۔ اگر اب نہ کرسکے تو کبھی نہیں کرسکیں گے۔ خدارا اپنا حق پہچانیے اپنا فرض پہچانیے اور دوسروں کو اس کا احساس دلائیے۔
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
مجھے یہ عبارت ان پیج میں بدل کر گف فارمیٹ میں چاہیے۔ اے فور سائز جس کا پرنٹ باآسانی ایک صفحے پر نکلوایا جاسکے۔ اس میں تبدیلی کرنا ہے تو آج کا دن ہے۔ کل میں یہ عبارت پرنٹ نکلوا کر اپنے محلے کی مسجد میں تقسیم کروں گا۔ میں اپنے باقی دوستوں اور احباب سے امید کرتا ہوں کہ وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ انٹرنیٹ ہر مسئلے کا حل نہیں۔ ہر کوئی انٹرنیٹ‌ پر نہیں آتا۔ آپ کو یہ پیغام عام آدمی تک پہنچانے کے لیے یہی ذرائع اختیار کرنا ہونگے۔ چندہ کیجیے، خود تقسیم کیجیے، دوسروں کو اس کی ترغیب دیجیے لیکن اس میں حصہ ضرور لیجیے۔ یاد رکھیں یہ اجتماعی کام ہے اکیلے بندے کا کام نہیں۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
وسلام
 
شاکر زبردست اور بروقت کام کیا ہے اور انشاءللہ اس کی کاپیاں نکال کر میں بھی تقسیم کرتا ہوں اور لوگوں تک پہنچاتا ہوں۔

باقی تمام ممبران اور پڑھنے والوں سے بھی درخواست ہے کہ خدارا اب تو جاگ جائیں ورنہ یہ نیند موت میں بدل جائے گی۔

اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی بپا​
 

زینب

محفلین
مین محب کی طرح کاپیاں چھپوا کر تقسیم تو نہیں کر سکتی کہ میں ملک سے باہر ہوں ہاں میں سب جاننے والوں کو یہ لنک میل کر دیتی ہوں۔۔۔۔
 
چلیں جی۔۔۔۔۔ کسی نہ کسی طرح ایک‌ صفحہ میں دے ہی مارا۔۔۔۔۔۔ کمپوزنگ کی ایک دو معمولی سی غلطیاں تھیں، ان کو ٹھیک کردیا ہے۔۔۔ اور صرف ایک دو جگہ جملہ میں معمولی سا رد و بدل کیا ہے۔ معذرت۔۔۔۔!
دستک: ان۔پیج فائل ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے:
یہاں کلک کریں

دستک: امیج فارمیٹ فائل ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے:
یہاں کلک کریں
 
کیا رہا۔ جمعہ کی نماز کے بعد پرچے بانٹنے کی مہم کا نتیجہ۔ اپ کی نیت اور عمل تو اچھا ہے۔
ویسے اس قسم کے پرچے ایک عرصہ تک جماعت اسلامی مسجدوں‌کے باھر تقسیم کرتی رہی ہے۔ اور لوگ اس پرچوں کو کاغذی جہاز بنا بنا کر اپنے بچوں‌کو دیتے تھے ۔ ایک صاحب تو بہت سے پرچے لے کر جاتے تھے کہ میں‌اپنے احباب میں‌تقسیم کروں گا۔ مگر ان کے بچے زیادہ تھے۔
 

دوست

محفلین
ہاہاہاہاہا
خوب کہی۔
کل کوئی پرنٹر والی دوکان ہی مجھے مل نہیں سکی۔ آج پرنٹ نکلواتا ہوں اور اس کے بعد اسے اپنے محلے کی ساری دوکانوں پر بانٹوں گا۔ باقی اپنی لائبریری پر رکھواؤں گا۔ جہاں سارے شہر سے لوگ آتے ہیں۔
وسلام
 

دوست

محفلین
مجھے آج اپنے تہی داماں ہونے کا احساس ہوا بہت شدت کے ساتھ
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں لاجواب ہوگیا۔ آج جب یہ پرچہ میں نے اپنے لائبریرین دیا تو پڑھ کر کہنے لگے سب ٹھیک ہے۔ بہت اچھا لکھا ہے۔ لیکن اس پر عمل کون کرے گا؟
کیا آپ کے پاس کوئی تنظیم ہے اس کام کے لیے؟ یا بھیڑ بکریوں کی طرح جاؤ دو نعرے لگاؤ اور پولیس آئے تو بھاگ لو؟
یہ کام تو وقت مانگتا ہے۔ یہ مسائل تو سب جانتے ہیں لیکن مسئلہ قیادت کا ہے۔
یہ سب سن کر میں لاجواب ہوگیا۔ میں تو دو بندوں کو قائل نہ کرسکا میں قیادت کروں گا؟
پھر مجھے یہی حل سوجھا کہ اب اسی پرچے کی پشت پر دو نعرے لکھوں اور اسے کسے گتے سے چپکا کر گلے میں‌ ڈالوں اور بس سٹاپ پر کھڑا ہوجاؤں۔ میرے بس میں جو ہے وہ تو کروں۔ آج کل پرسوں کوئی تو ساتھ ملے گا۔ چناچہ میں اب یہی کرنے جارہا ہوں۔ اپنے بس سٹاپ پر آدھ گھنٹا کھڑا ہوا کروں گا۔ اور اپنی یونیورسٹی کے بس سٹاپ پر بھی اسی طرح گلے میں تختی لٹکا کر کھڑا ہوا کروں‌گا۔
آپ نے احتجاج کا کیا طریقہ سوچا ہے؟
 
ارے شاکر بھائی! کیا کرنے لگے ہیں آپ؟؟؟ ایسے نہیں ہوگا۔
تنظیم تو بنانی ہی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔ احتجاج کرنے سے پہلے ہم خیال لوگوں کو اکٹھا کرنا اہم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!
 

دوست

محفلین
میں نے اپنے احتجاج کی ابتدا کردی ہے۔ ہم خیال انٹرنیٹ پر تو موجود ہیں لیکن میرے محلے میں‌ نہیں۔ انھیں ہم خیال بنانے کے لیے مجھے خود مثال بننا پڑے گا اور وہ میں بنوں گا۔ آج سے روزانہ آدھا گھنٹہ اپنے بس سٹاپ پر پوسٹر اٹھا کر احتجاج کروں گا۔
 

Mona*

محفلین
:)
ذندگی تو ھے مُشکلات کا آغازِ سفر
ھاتھ زخمی ھوا کبھی تو کبھی
ٹھوکر لگنے راستوں کی دُھول
سے اَٹ گے
بس رختے سفر کچھ ایسا ھو
کہ راستوں کی ھر مُشکل
خو د منزل کا پتہ دے
 
Top