کاشفی

محفلین
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا
رقص کوئی بھی نہ ہوگا رقص بسمل کے سوا


متفق اس پر سبھی ہیں کیا خدا کیا ناخدا
یہ سفینہ اب کہیں بھی جائے ساحل کے سوا


میں جہاں پر تھا وہاں سے لوٹنا ممکن نہ تھا
اور تم بھی آ گئے تھے پاس کچھ دل کے سوا


زندگی کے رنگ سارے ایک تیرے دم سے تھے
تو نہیں تو زندگی کیا ہے مسائل کے سوا


اس کی محفل آئینہ خانہ تو تھی لیکن سرورؔ
سارے آئینے سلامت تھے مرے دل کے سوا
 

کاشفی

محفلین
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا
رقص کوئی بھی نہ ہوگا رقص بسمل کے سوا

 
Top