انتہا
محفلین
دسمبر کی نظمیں
اْسے کہنا دسمبر جا رہا ہے
وہی لوگوں سے روٹی کا نوالہ
چھین لینے کی حریصانہ پراگندہ سیاست
سیاہ کاروں کے ہاتھوں میں چیختی، سسکتی ہماری ریاست
جہاں مائیں۔۔۔۔جگر گوشوں کو
اپنے خون میں ڈوبی ہوئی
لوری سناتی ہیں
جہاں پر خواب میں سہمے ہوئے بچوں کی آہیں ڈوب جاتی ہیں
یہ میرے سامنے سے کیسا موسم جا رہا ہے
اْسے کہنا دسمبر جا رہا ہے
وہی سہمے ہوئے وعدے
لہو میں تر دعائیں
لرزتی کانپتی روتی صدائیں
عبادت کرنے والوں کو بلاتی ہیں
بھلائی کی طرف آؤ
بھلائی کی طرف آؤ
مگر ایسا نہیں ہوتا
مگر ایسا نہیں ہوتا
خدا اور آدمی کے درمیان
ایک خوف کی دیوار چڑھتی اور بڑھتی جا رہی ہے
اسی جانب اندھیروں کا سمندر جا رہا ہے
اْسے کہنا دسمبر جا رہا ہے
میرا قومی خزانہ لوٹنے والوں کے پیچھے ہاتھ کس کا ہے
اور ایسے لالچی لوگوں کو حاصل ساتھ کس کا ہے
وطن والوں کی خواہش ہے
کہ یہ سب لوگ
رسنِ صبح تک پہنچیں
یا دارِ شام تک پہنچیں
یہ جس انجام کے قابل ہیں
اس انجام تک پہنچیں
کہ ذلت کی طرف ان کا مقدر جا رہا ہے
(فاروق اقدس)
اْسے کہنا دسمبر جا رہا ہے
وہی لوگوں سے روٹی کا نوالہ
چھین لینے کی حریصانہ پراگندہ سیاست
سیاہ کاروں کے ہاتھوں میں چیختی، سسکتی ہماری ریاست
جہاں مائیں۔۔۔۔جگر گوشوں کو
اپنے خون میں ڈوبی ہوئی
لوری سناتی ہیں
جہاں پر خواب میں سہمے ہوئے بچوں کی آہیں ڈوب جاتی ہیں
یہ میرے سامنے سے کیسا موسم جا رہا ہے
اْسے کہنا دسمبر جا رہا ہے
وہی سہمے ہوئے وعدے
لہو میں تر دعائیں
لرزتی کانپتی روتی صدائیں
عبادت کرنے والوں کو بلاتی ہیں
بھلائی کی طرف آؤ
بھلائی کی طرف آؤ
مگر ایسا نہیں ہوتا
مگر ایسا نہیں ہوتا
خدا اور آدمی کے درمیان
ایک خوف کی دیوار چڑھتی اور بڑھتی جا رہی ہے
اسی جانب اندھیروں کا سمندر جا رہا ہے
اْسے کہنا دسمبر جا رہا ہے
میرا قومی خزانہ لوٹنے والوں کے پیچھے ہاتھ کس کا ہے
اور ایسے لالچی لوگوں کو حاصل ساتھ کس کا ہے
وطن والوں کی خواہش ہے
کہ یہ سب لوگ
رسنِ صبح تک پہنچیں
یا دارِ شام تک پہنچیں
یہ جس انجام کے قابل ہیں
اس انجام تک پہنچیں
کہ ذلت کی طرف ان کا مقدر جا رہا ہے
(فاروق اقدس)