پاکستانی سیاست ایک کولہو کے بیل کی طرح چند مخصوص نظریئے کے دائرے میں مسلسل چکر لگا رہی ہے ۔ چند طاقتور طبقات ہیں جو ان نظریات میں وقت اور حالات کی مناسبت کیساتھ تھوڑی سی تبدیلی کیساتھ کبھی پرانے یا کسی نئے چہرے کیساتھ نمودار ہوجاتے ہیں ۔ مگر سیاست کی باگ پر اپنی گرفت کمزور نہیں ہونے دیتے ۔ ہر دہائی میں مخالفین کی نظر میں حکومت ایک بدترین دور کی صورت میں ابھرتی ہے ۔ اور پھر وہی مخالفین دوسرے دور میں خود بدترین حکومت کا نمونہ بنے ہوئے ہوتے ہیں اور پچھلی حکومت ان کو بدترین حکومت کے اعزاز سے نوازنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہوتی ہے ۔
ہر دور ِ اقتدار میں یہ بات مسلسل تکرار کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ " یہ ہماری تاریخ کا بدترین دور ہے " اگر اس تکرار کا مشاہدہ کیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ بھٹو کے دور کو اسلام اور قومی سلامتی کے لیئے بدترین دور قرار دیا گیا ۔ وہ رخصت ہوئے تو گلی کوچوں میں مٹھائیاں بانٹیں گئیں ۔ ابھی اسی مستی میں تھے تو معلوم ہوا کہ ملک مارشل لاء کی زد میں ہے ۔ اور پھر اسی طرح گیارہ برس گذر گئے ۔ پھر اسی دوران قوم کو یہ احساس ہوا کہ ضیاء کے دور سے " بدترین دور " پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا ۔ ایک حادثے کے بعد وہ گئے تو بینظیر آگئیں ۔ پھر ان کو دور کو بھی بدترین دور قرار دیا گیا اور پھر اسی طرح نواز شریف کے دور کو بھی " بدترین دور " کہا گیا ۔ پھر یہ تبدیلی کی خواہش مشرف کی حکومت کے ساتھ ہوئی ۔ پھر زرداری عہد بھی بدترین دور کہلایا اور اب نوز شریف کے دور سے بھی یہی توقعات وابستہ ہیں ۔
تاریخ کے تسلسل میں دیکھئے تو آج تبدیلی کی یہ خواہش کونسا دور لیکر آئے گی تو کوئی بعید نہیں کہ آنے والا دور بھی پچھلے ادوار کی طرح " بدترین دور " ہوگا ۔ کم از کم اقتدار سے محروم لوگوں کی تو یہی رائے ہوگی ۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کونسا سا حکمران تاریخ کا بدترین حکمران تھا ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہی بدترین کا حصول دراصل وہ تبدیلی کی خواہش ہے ۔ جو عوام چاہتی ہے ۔ ؟ ہم جو تبدیلی چاہتے ہیں وہ خیر کے راستے پر کیوں نہیں جاتی ۔ ؟ اس کو وجود پذیر نہ ہونے کے عوامل کونسے ہیں ؟ میرا تاثر یہ ہے کہ محض تبدیلی کسی خیر کا باعث نہیں بن سکتی ۔ اس کے لیئے ایک ایسے اصلاحی عمل کا ناگزیر ہونا ضروری ہے ۔ جس سے اخلاقی ، سیاسی ، معاشرتی رواداری کا پہلو لوگوں میں اجاگر ہو اور یہ پہلو قومی وحدت پر آکر منتج ہو ۔ جب تک " لے کے رہیں گے پاکستان " والی اجتماعی سوچ نہیں پیدا ہوگی تب تک ایک ایسی تبدیلی کا وقوع پذیر ہونا ناممکن ہے جو معاشرے میں کسی جوہری تبدیلی کا باعث بن سکے ۔
موجودہ حالات کا تسلسل کسی کے بھی حق میں نہیں ہے ۔ بے یقینی کی اس کیفیت سے معاشی عمل ، امن وامان ، جہموری اقدار اور سب سے بڑھ کر قومی اداروں کا وقار اور بقاء سب خطرے میں ہے ۔ جو لوگ سیاست میں اس مشن کے ساتھ آئے تھے کہ وہ اس سے معاشرے کو تبدیل کر لیں گے ۔ مگر وہ معاشرے کو کیا تبدیل کرتے ۔ بلکہ سیاست نے انہیں بدل کر رکھ دیا ۔ اب وہ سیاست کے رحم وکرم پر ہیں ۔ اور آج ان کو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ اس میدان میں کس عزم کے ساتھ اترے تھے ۔ جماعتِ اسلامی اور عمران خان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ میرا تاثر یہ ہے کہ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ سیاست اور اقتدار کے زور پر اس ملک کو مذید اسلامی یا سیکولر بنا دیں گے تو وہ صرف اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں ۔ اگر ملک کو سیکولر بنانا ممکن ہوتا تو یہ کام 1970 ہی میں ہوجاتا ۔ جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تھی ۔ اور اسی طرح اسلام کی کسی خاص تعبیر کا نفاذ یہاں ممکن ہوتا تو آج سرحد کی فضاء بدل چکی ہوتی ۔ سیاست دنیا بھر میں اجتماعیت کی سطح پر درپیش مسائل کو مخاطب کرنے کا نام ہے ۔ اگر ہمیں اپنی سوچوں یا سماجی ہیت میں تبدیلی مقصود ہے تو ہمیں سیاست کے بجائے معاشرے کو مخاطب کرنا چاہیئے ۔ اور سیاست میں سرگرم لوگوں کو یہ چاہیئے کہ وہ پاکستان کے داخلی و خارجی مسائل کے حل کے لیئے کوئی تگ و دو کریں ۔اور کوئی مناسب حل نکالیں ۔