بھلکڑ
لائبریرین
فجر کی نماز کے بعد اس نے رات کا بچا ہوا کھانا ناشتے کے طور پر کھایا اور تیار ہونا شروع ہو گیا۔ پینٹ شرٹ، ٹائی، پالش کیے ہوئے جوتے اور ہاتھ میں بریف کیس لیے ہوئے اپنے سوئے ہوئے بچوں کو اللہ حافظ کیا اور کام کے لے نکل گیا۔ جب وہ گلی سے گزر رہا تھا تو کچھ لوگ اور بھی کام کے لیے نکل رہے تھے سب اس کی بڑٰی عزت کرتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو سرکاری آفس میں جاب کرتا تھا لیکن کنٹیکٹ پر ہونے کی وجہ سے اور کچھ سیاسی تبدیلوں کی وجہ سے نوکری ہاتھ سے نکل گئی۔ لیکن اب بھی وہ صبح فجر کے بعد ہی گھر سے نکلتا ہے، ویسے ہی جیسے ملازمت کے دوران آفس کے لیے صبح گھر سے نکلا کرتا تھا۔ محلے والوں کو ابھی تک اس بات کا پتہ نہیں تھا کہ وہ نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
محلے سے دور نکل کر سٹاپ پر آ کر کھڑا ہو گیا اور گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔ ایک ویگین آئی تو باقی لوگوں کے ساتھ یہ بھی سوار ہو گیا اور پیر ودھائی سے کچھ پہلے پولیس لائن والے سٹاپ پر اتر گیا۔ یہاں سے اس نے پیدل چلنا شروع کیا اور چلتے چلتے فروٹ منڈی کی طرف موڑ گیا۔ اس کی ظاہر حالت سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی ادارے کا آفیسر یا پھر اچھی پوسٹ کا ملازم ہے۔ اس لیے ہر بندہ اس کی طرف دیکھتا تھا۔ چلتے چلتے وہ فروٹ منڈی کی اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں فروٹ کی پیٹیاں فروخت ہوتی تھیں۔ قریب سے ہی مزدوروں کی آواز آ رہی تھی “دس روپے پیٹی، دس روپے پیٹی” یہ سب مزدور ٹرک کے پاس کھڑے تھے وہاں سے جو خریدار پیٹی خریدتا اس پیٹی کو منڈی سے باہر تک یا پھر گاڑی تک پہنچانے کے لیے مزدور دس روپے لیتے تھے۔
یہ بھی ان مزدوروں کے پاس سے گزرا اور ایک ٹرک کے پاس کھڑا ہو گیا۔ پیٹیاں بیچنے والوں کو سلام کیا اور انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ٹرک پر چڑھا لیا۔ وہ ٹرک کے اندر پیٹیوں کے پیچھے چلا گیا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد گندے اور پھٹے کپڑے پہنے ہوا آدمی پیٹیوں کے پیچھے سے نکلا ،ٹرک سے نیچے چھلانگ لگائی اور اسی دوران مزدوروں کی آواز کے ساتھ ایک اور آواز بھی بلند ہوئی “دس روپے پیٹی”
خرم شہزاد خرم
محلے سے دور نکل کر سٹاپ پر آ کر کھڑا ہو گیا اور گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔ ایک ویگین آئی تو باقی لوگوں کے ساتھ یہ بھی سوار ہو گیا اور پیر ودھائی سے کچھ پہلے پولیس لائن والے سٹاپ پر اتر گیا۔ یہاں سے اس نے پیدل چلنا شروع کیا اور چلتے چلتے فروٹ منڈی کی طرف موڑ گیا۔ اس کی ظاہر حالت سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی ادارے کا آفیسر یا پھر اچھی پوسٹ کا ملازم ہے۔ اس لیے ہر بندہ اس کی طرف دیکھتا تھا۔ چلتے چلتے وہ فروٹ منڈی کی اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں فروٹ کی پیٹیاں فروخت ہوتی تھیں۔ قریب سے ہی مزدوروں کی آواز آ رہی تھی “دس روپے پیٹی، دس روپے پیٹی” یہ سب مزدور ٹرک کے پاس کھڑے تھے وہاں سے جو خریدار پیٹی خریدتا اس پیٹی کو منڈی سے باہر تک یا پھر گاڑی تک پہنچانے کے لیے مزدور دس روپے لیتے تھے۔
یہ بھی ان مزدوروں کے پاس سے گزرا اور ایک ٹرک کے پاس کھڑا ہو گیا۔ پیٹیاں بیچنے والوں کو سلام کیا اور انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ٹرک پر چڑھا لیا۔ وہ ٹرک کے اندر پیٹیوں کے پیچھے چلا گیا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد گندے اور پھٹے کپڑے پہنے ہوا آدمی پیٹیوں کے پیچھے سے نکلا ،ٹرک سے نیچے چھلانگ لگائی اور اسی دوران مزدوروں کی آواز کے ساتھ ایک اور آواز بھی بلند ہوئی “دس روپے پیٹی”
خرم شہزاد خرم