دشت، صحرا، سراب باقی ہیں

ایم اے راجا

محفلین
السلام علیکم، اہلِ محفل و اساتذہ کرام۔
کافی دنوں بعد فراغت نصیب ہوئی ہے، سو ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوں۔


دشت،صحرا،سراب باقی ہیں
تشنگی کے عذاب باقی ہیں

ذات سے نکلوں تو تجھے چاہوں
ذات کے احتساب باقی ہیں

آج بھی گھر مرا مہکتا ہے
صحن میں کچھ گلاب باقی ہیں

رنگ آئیں کہاں سے پھولوں پر
زرد رت کے عذاب باقی ہیں

اس جہاں سے گذر گئے تو کیا
اور بھی سو حساب باقی ہیں

کچھ سوالوں کے مل گئے لیکن
کچھ کے رہتے جواب باقی ہیں

گرد بادوں نے اٹ دیئے سورج
پھر بھی کچھ آفتاب باقی ہیں

خوف میں ہوں گھرا ہوا راجا
تیرگی کے چناب باقی ہیں
 

الف عین

لائبریرین
میں تو انتقال فرما گیا تھا۔۔۔۔۔۔
راجا اچھی غزل کہی ہے۔
صرف تین اشعار میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ باقی میں بہتری کی صورت ہو سکےی ہے، لیکن درست ہیں۔۔
پہلی بات۔۔ مہکنا کا وزن ’فاعلن‘ باندھا گیا ہے جو غلط ہے، یہ ’
فعولن‘ ہوتا ہے،
اس کو
آج بھی گھر مہک رہا ہے مرا
کہنے میں کیا حرج ہے؟

اس جہاں سے گذر گئے تو کیا
آگے بھی سو حساب باقی ہیں
یں ’آگے‘ کی ے جو گر رہے ہے، اچھی نہیں لگ رہی، درست تو ہے ویسے۔ لیکن
اور بھی سو حساب۔۔۔۔۔ ؎بہتر ہے۔

اور یہ چناب کا قافیہ تم کو بڑا پسند ہے، جب کہ ہر جگہ اس کا مطلب نہیں نکلتا۔ یہاں تیرگی کے چناب سے مراد ’تیرگی کے دریا‘ ہو سکتا ہے، لیکن اس کا تعلق خوف سے کیا ہے، سمجھ میں نہیں آیا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
میں تو انتقال فرما گیا تھا۔۔۔۔۔۔
راجا اچھی غزل کہی ہے۔
صرف تین اشعار میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ باقی میں بہتری کی صورت ہو سکےی ہے، لیکن درست ہیں۔۔
پہلی بات۔۔ مہکنا کا وزن ’فاعلن‘ باندھا گیا ہے جو غلط ہے، یہ ’
فعولن‘ ہوتا ہے،
اس کو
آج بھی گھر مہک رہا ہے مرا
کہنے میں کیا حرج ہے؟

اس جہاں سے گذر گئے تو کیا
آگے بھی سو حساب باقی ہیں
یں ’آگے‘ کی ے جو گر رہے ہے، اچھی نہیں لگ رہی، درست تو ہے ویسے۔ لیکن
اور بھی سو حساب۔۔۔۔۔ ؎بہتر ہے۔

اور یہ چناب کا قافیہ تم کو بڑا پسند ہے، جب کہ ہر جگہ اس کا مطلب نہیں نکلتا۔ یہاں تیرگی کے چناب سے مراد ’تیرگی کے دریا‘ ہو سکتا ہے، لیکن اس کا تعلق خوف سے کیا ہے، سمجھ میں نہیں آیا۔
سب سے پہلے شکریہ کہ آپ نے توجہ فرمائی۔
اور حضور یہ انتقال والی کیسی منحوس بات کہہ ڈالی، اللہ آپکو ہماری عمر اور صحت بھی بخش دے۔
استادِ محترم میں حکم کی بجا آوری کرتا ہوں، باقی، تیرگی کے چناب سے اندھیروں کے دریا مراد ٹھیک ہے اور اندھیروں سے زیادہ ڈر کسی چیز کا نہیں ہوتا یہاں تک کہ بہادر سے بہادر لوگوں کو بھی اندھیروں سے خوف آتا ہے۔ شاعر کا بھی یہی مقصد ہے، کہ میں خوف میں گھرا ہوا ہوں کیونکہ تیرگی کے چناب (اندھیروں کے دریا) ابھی اترے نہیں بلکہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے باقی ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
آج بھی گھر مہک رہا ہے مرا

سر اگر اس مصرع کو یو کردیں تو کیا خیال ہے۔۔۔۔

آج بھی گھر مرا مہکتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
آج بھی گھر مرا مہکتا ہے
یہ ہواق نہ رواں مصرع،، اسی کو رکھو۔
لیکن تیرگی کے چناب باقی ہیں
سے یہ مطلب کہاں نکلتا ہے کہ ابھی ابھی اترے نہیں ہیں، پہلے مصرعے میں کوئی قرینہ ایسا نہیں کہ جس میں ان کے چڑھے ہوئے ہونے کی بات ہو؟؟
 

ایم اے راجا

محفلین
سر مقطع یوں سوجھا ہے،

ڈوب جاؤں نہ پھر کہیں راجا
تیرگی کے چناب باقی ہیں


سر اگر ٹھیک ہے تو آپکی اجازت پا کر اسے میری شاعری کی لڑی میں پرو دوں؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
راجا بھائی کیا خوب غزل کہی ہے آپ نے بہت خوب اور سر جی یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں دل دکھ جاتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اچھی صحت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے آمین
 

ایم اے راجا

محفلین
سر مقطع یوں سوجھا ہے،

ڈوب جاؤں نہ پھر کہیں راجا
تیرگی کے چناب باقی ہیں


سر اگر ٹھیک ہے تو آپکی اجازت پا کر اسے میری شاعری کی لڑی میں پرو دوں؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
نہیں جانی ایسی بات نہیں ہے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا پچھلے دنوں ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی میں نے ابھی ابھی فون کیا ہے وہ نماز پڑھنے گے ہوئے ہیں کچھ دیر بعد فون کروں گا اور یہ بتائیں آپ کا فون کیوں بند ہے
 

الف عین

لائبریرین
ارے میں نے تو مذاق کیا تھا بھائی، میں تو ابھی زمانے کے سینے پہ مونگ دلنے کے لئے زندہ رہوں گا!! ویسے انتقال کے تم نے یہی معنی کیوں لئے؟؟؟
نہیں راجا، مقطع تو ٹھیک ہے لیکن اس میں بھی "چناب باقی ہیں" کچھ جم نہیں رہا ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
دشت،صحرا،سراب باقی ہیں
تشنگی کے عذاب باقی ہیں

ذات سے نکلوں تو تجھے چاہوں
ذات کے احتساب باقی ہیں

آج بھی گھر مرا مہکتا ہے
صحن میں کچھ گلاب باقی ہیں

رنگ آئیں کہاں سے پھولوں پر
زرد رت کے عذاب باقی ہیں

اس جہاں سے گذر گئے تو کیا
اور بھی سو حساب باقی ہیں

کچھ سوالوں کے مل گئے لیکن
کچھ کے رہتے جواب باقی ہیں

گرد بادوں نے اٹ دیئے سورج
پھر بھی کچھ آفتاب باقی ہیں

ڈوب جاؤں نہ پھر کہیں راجا
تیرگی کے چناب باقی ہیں

سر براہ کرم اسے ایک نظر دیکھ لیجیئے۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
دشت،صحرا،سراب باقی ہیں
تشنگی کے عذاب باقی ہیں

ذات سے نکلوں تو تجھے چاہوں
ذات کے احتساب باقی ہیں

آج بھی گھر مرا مہکتا ہے
صحن میں کچھ گلاب باقی ہیں

رنگ آئیں کہاں سے پھولوں پر
زرد رت کے عذاب باقی ہیں

اس جہاں سے گذر گئے تو کیا
اور بھی سو حساب باقی ہیں

کچھ سوالوں کے مل گئے لیکن
کچھ کے رہتے جواب باقی ہیں

گرد بادوں نے اٹ دیئے سورج
پھر بھی کچھ آفتاب باقی ہیں

ڈوب جاؤں نہ پھر کہیں راجا
تیرگی کے چناب باقی ہیں

سر براہ کرم اسے ایک نظر دیکھ لیجیئے۔ شکریہ۔

سر السلام علیکم۔
کچھ مصروفیات کی وجہ سے چند دن محفل سے دور تھا لیکن یہاں آیا تو پتہ چلا کہ آپ بھی نہیں آئے، سر خیریت تو ہے۔ خدا کرے آپ بخیر ہوں۔
سر براہِ کرم اس کو دیکھ لیجیئے گا۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
راجا، تم پلیز پہلی پوسٹ میں ترمیم نہ کیا کرو تا کہ میں یا کوئی بھی دیکھ سکے کہ کہاں ترمیم کا مشورہ دیا ہے۔
ذات سے نکلوں تو تجھے چاہوں
ذات کے احتساب باقی ہیں
شاید اس کو پہلے ٹھیک سے نہیں دیکھا تھا، اس میں ’نکلوں‘ اچھا نہیں لگ رہا، درست تو ہے۔ لیکن محض ’نکل‘ تقطیع میں آتا ہے اور ذات کی تکرار کی بھی ضرورت نہیں۔ اور احتساب جمع میں تو نہیں ہوتا۔ اس شعر کو نکال ہی دو۔

گرد بادوں نے اٹ دیئے سورج
پھر بھی کچھ آفتاب باقی ہیں

اس کی اصل شکل کیا تھی؟ اب بھی شعر اچھا نہیں لگ رہا ہے، کتنے آفتاب ہوتے ہیں؟

ڈوب جاؤں نہ پھر کہیں راجا
تیرگی کے چناب باقی ہیں
اس میں اب بھی بات نہیں بن سکی، باقی چناب کیا ہوئے؟ ہر بار ڈوب کے ابھر آئے ہو جو پھر ڈوبنا پڑ رہا ہے؟
 

ایم اے راجا

محفلین
سر یہ غزل کافی عرصہ سے مکمل نہیں ہو سکی تھی کہ رات کراچی سے آتے ہوئے اچانک کچھ اس طرح ذہن میں آئی ہے، ملاحظہ ہو۔

دشت، صحرا، سراب باقی ہیں
تشنگی کے عذاب باقی ہیں

دیکھ کر جن کو خون جلتا ہے
چشمِ نم میں وہ خواب باقی ہیں

چھوڑ کر جا چکے سبھی ہمدم
ایک دو ہم رکاب باقی ہیں

کا غذِ ذہن پر ابھی تک کندہ
تیری یادوں کے باب باقی ہیں

سبز کیسے ہوں رنگ باغوں کے
زرد رت کے عذاب باقی ہیں

اس جہاں سے گذر گئے تو کیا
اور بھی سو حساب باقی ہیں

گھر مرا آج بھی مہکتا ہے
صحن میں کچھ گلاب باقی ہیں

درد، وحشت، گٹھن لیئے دل میں
آج بھی ہم، جناب باقی ہیں

کچھ سوالوں کے مل گئے راجا
کچھ کے رہتے جواب باقی ہیں​
 
Top