دشت، صحرا، سراب باقی ہیں
تشنگی کے عذاب باقی ہیں
۔۔۔مطلع تو ہو چکا ہے
دیکھ کر جن کو خون جلتا ہے
چشمِ نم میں وہ خواب باقی ہیں
۔۔ درست، یہ نیا شعر ہے
چھوڑ کر جا چکے سبھی ہمدم
ایک دو ہم رکاب باقی ہیں
چھوڑ کر جا چکے سبھی ہمدم
ایک دو ہم رکاب باقی ہیں
۔۔ اس شعر کے اضافے کی ضرورت تو نہیں تھی۔معانی کے اعتبار سے بھی کوئی بہت اہم نہیں۔
کا غذِ ذہن پر ابھی تک کندہ
تیری یادوں کے باب باقی ہیں
۔۔ پہلا مصرع بحر سے خارج ہے۔ اس کو یوں کہیں تو کیسا ہو
اب بھی دل کی کتاب میں مرقوم
سبز کیسے ہوں رنگ باغوں کے
زرد رت کے عذاب باقی ہیں
۔۔ پہلے والا شعر ہی بہتر تھا۔
رنگ آئیں کہاں سے پھولوں پر
زرد رت کے عذاب باقی ہیں
درد، وحشت، گٹھن لیئے دل میں
آج بھی ہم، جناب باقی ہیں
۔۔۔یہاں قافیہ اچھا نہیں لگ رہا، پ[ہلے مصرع میں گٹھن سے کیا مراد ہے، کیا ’گ ھ ٹ ن‘ کی غلط املا ہے؟
اور تو کوئی نیا شعر نہیں ہے نا؟