حسان خان
لائبریرین
ہر طرف فوجِ عدو کے دَل نظر آنے لگے
موت کے بادل سرورِ زیست پر چھانے لگے
سازِ ایمانی کے سارے تار تھرانے لگے
وہ حسین ابنِ علی باطل سے ٹکرانے لگے
اک طرف چھوٹا سا کنبہ ہے مجسم فکر و غور
اک طرف فوجوں کا پرچم انتہائے جبر و جور
دیکھئے اٹھنے لگیں جور و جفا کی آندھیاں
ہر طرف ہونے لگا ہے رات کا دن پر گماں
دیکھئے بڑھنے لگا افواج کا سیلِ رواں
چند خیموں کی طرف جو اک یہاں ہے اک وہاں
جابر و قہار پیاسے خون کے ہونے لگے
ابنِ حیدر تخمِ ایمان و عمل بونے لگے
چند انسانوں کا دستہ رنج و غم سہنے لگا
بے زبانی میں کہانی ظلم کی کہنے لگا
جو نہ بہنا چاہیے تھا خون وہ بہنے لگا
ہر کوئی اپنی اجل کا منتظر رہنے لگا
ان گنت فوجِ یزیدی تیر برسانے لگی
دشتِ کربل سے شہادت کی ندا آنے لگی
تن گئے نیزے دمِ شمشیر لب پر آ گیا
بڑھ چلے گھوڑے درِ ایماں پہ لشکر آ گیا
شاہ کا دستہ بھی خیموں سے نکل کر آ گیا
باری باری کٹ مرو یہ حکمِ داور آ گیا
حفظِ ایماں کے لیے پیر و جواں سب کٹ گئے
اس شہادت پر فرشتوں تک کے سینے پھٹ گئے
چشمِ حیرت سے نہ دیکھو یہ نہیں قصہ قدیم
آج تک زندہ ہیں ٹکڑے کر گیا جن کے غنیم
آج تک زندہ ہیں وہ عباس با عزمِ صمیم
آج تک زندہ ہیں اکبر، اصغر و ذبحِ عظیم
کون تھے وہ لوگ جن کا خون ناحق بہہ گیا
عاشقِ حق تھے وہ ان کا کام زندہ رہ گیا
(کالی داس گپتا رضا)