حبیب جالب دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے

غزل قاضی

محفلین
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

خامشی پر ہیں لوگ زیر ِ عتاب
اور ہم نے تو بات بھی کی ہے

مطمئن ہے ضمیر تو اپنا
بات ساری ضمیر ہی کی ہے

پاسکیں گے نا عمر بھر جس کو
جُستجو آج بھی اُسی کی ہے

جب مہ و مہر بجھ گئے جالب
ہم نے اشکوں سے روشنی کی ہے

حبیب جالب
 
Top