السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
مدینۃ الاولیاء احمدآباد میں ایک مردِ مجاہد تھا۔ نام اُس کا موسیٰ پٹیل، قوم کا بڑا خادِم، شہر میں جب کبھی فسادات ہوتے، بے گناہ مسلمانوں کی گرفتاریاں عمل میں آتیں، اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے تب ایسے حالات میں گرفتار شدہ مسلم نو جوانوں کے اپنے گھر والے بھی ان کی خیر خبر لینے سے گھبراتےتھے۔ اور وہ مردِ مجاہد موسیٰ صاحب پٹیل یکا و تنہا اپنے اسکوٹر پر غیر مسلموں کے فسادزدہ علاقوں سے بھی بے خوف و خطر گزر جاتا اور گرفتار شدہ مسلم نو جوانوں کی خبر لیتا، انہیں کھانا پہنچاتا، کپڑے پہنچاتا،دوائیاں پہنچاتا، ان کی ضمانت کا انتظام کرواتا۔ لوگوں نے بارہا اس سے دریافت بھی کیا آپ کو فسادیوں کا ڈر نہیں لگتا۔وہ اکثر ہنس کر بات ٹال جاتا۔ایک بار کسی سبب سے پولیس نے خود اسےگرفتار کر لیا، بس کیا تھا اس کی گرفتاری کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی اور باوجود کرفیو کے سارے شہر کی عورتیں پولیس اسٹیشن پر اس کی رہائی کے لیے دھرنا دینے پہنچ گئی۔ پولیس کو ناچار چند گھنٹوں میں بلا کسی کارروائی کے اسےرہا کرنا پڑا۔اس کے انتقال کےبعدتحقیق کرنے پر کسی قریبی نے یہ عقدہ حل کیا اور بتایا کہ وہ
اَللّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ
کا عامل تھا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔