کاشفی
محفلین
غزل
(سید محمد حنیف اخگر ملیح آبادی - ہندوستان و کراچی پاکستان ، امریکہ)
دشواریوں نے راہ کو آساں بنا دیا
ہر مرحلے کو منزلِ جاناں بنا دیا
کتنی تھی تابِ حسن کہ اُس کی نگاہ نے
ہر آرزو کو شعلہ بداماں بنا دیا
چارہ گروں کی شعبدہ بازی پہ دل نثار
درماں کو درد، درد کو درماں بنا دیا
محدودِ آرزوئے مسرت تھا دل مرا
وسعت نے غم کی اس کو بیاباں بنا دیا
اک ذرہء حقیر کی قوت تو دیکھئے
تسخیر کائنات کو آساں بنا دیا
رُخ پر ترے ٹھہر کے مری چشم شوق نے
آرائش جمال کو آساں بنا دیا
اک جنبشِ نگاہ بڑا کام کر گئی
تارِ نظر کو جزوِ رگِ جاں بنا دیا
آیا ہے وہ بھی وقت کہ اکثر بہار نے
ہرچاکِ گل کو میرا گریباں بنا دیا
اخگر نقاب اُلٹ کے کسی خوش جمال نے
کارِ دل و نگاہ کو آساں بنا دیا
(سید محمد حنیف اخگر ملیح آبادی - ہندوستان و کراچی پاکستان ، امریکہ)
دشواریوں نے راہ کو آساں بنا دیا
ہر مرحلے کو منزلِ جاناں بنا دیا
کتنی تھی تابِ حسن کہ اُس کی نگاہ نے
ہر آرزو کو شعلہ بداماں بنا دیا
چارہ گروں کی شعبدہ بازی پہ دل نثار
درماں کو درد، درد کو درماں بنا دیا
محدودِ آرزوئے مسرت تھا دل مرا
وسعت نے غم کی اس کو بیاباں بنا دیا
اک ذرہء حقیر کی قوت تو دیکھئے
تسخیر کائنات کو آساں بنا دیا
رُخ پر ترے ٹھہر کے مری چشم شوق نے
آرائش جمال کو آساں بنا دیا
اک جنبشِ نگاہ بڑا کام کر گئی
تارِ نظر کو جزوِ رگِ جاں بنا دیا
آیا ہے وہ بھی وقت کہ اکثر بہار نے
ہرچاکِ گل کو میرا گریباں بنا دیا
اخگر نقاب اُلٹ کے کسی خوش جمال نے
کارِ دل و نگاہ کو آساں بنا دیا