فیصل عظیم فیصل
محفلین
۔۔
آخری تدوین:
قانون کے الفاظ دیکھ لیںسر جی کہانی گو کہ آپ نے خود ساختہ کہی مگر پوری ساخت الگ ہی کہانی سنا رہی ہے ۔۔خیر جو بھی آپ نے بیان کیا شاید اسی بات کو لے کر کیس کا فیصلہ ہو گیا خیر میں تو صرف اتنا عرض کرونگا کہ پوری کہانی میں سارے عوامل پیش نظر رکھے گئے کہ آگے کیا معاملات ہو سکتے ہیں اور جس طرح ظہیر کو سپونسر کیا جا رہا ہے اس سے کچھ اور کہانیاں بھی بن سکتی ہیں میرا صرف یہ کہنا ہے کہ لڑکی کو ماں سے اور باپ سے عدالت میں ہی ملایا جا تا جج کی موجودگی میں لڑکی کو نشہ کے زیرِ اثر رکھا جانا یا کسی اور بنیاد پر بلیک میل کیا جانا بھی کچھ بعید نہیں ہے ۔۔۔اور جسطرح عجلت کا مظاہرہ کیا گیا وہ بھی سمجھ سے باہر ہے ماں بہرحال ماں ہوتی ہے اور باپ کے ولی ہونے کو کسی بھی طرح چیلنج نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔
محترم شاید آپ میری کہاوت سے مراد مارپیٹ یا ڈانٹ ڈپٹ لے رہے ہیں۔میں بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ میرا کہاوت تحریر کرنے سے مراد یہ ہے کہ بچوں کو لاڈ پیار اور محبت دیں اور ساتھ ساتھ غیر محسوس انداز میں ان پر کڑی نظر بھی رکھیں۔کسی بھی غلطی یا شکایت کے موقع پر گھر سے باہر اور گھر میں موجود افراد کے سامنے سرزیش نہ کریں بلکہ کمرے میں تنہائی کی حالت میں شکایت یا غلطی کے مطابق سرزیش کریں اور انداز ایسا اختیار کریں کے بچے کو یہ محسوس نہ ہو کہ اسے بے عزت کیا جا رہا ہے۔ہمیشہ مہذب رویہ رکھیں تاکہ بچہ آپ یا گھر سے باغی نہ ہو۔بچوں پر منحصر ہے، کئی بچے حساس ہوتے ہیں، شیر کی نظر سے دیکھیں گے تو مزید سہم جائیں گے اور دل کی بات زبان پر نہ لا پائیں گے اور راہِ فرار اختیار کریں گے۔ آپ نے جو فرمایا ہے نا کہ دوستانہ ماحول گھرمیں رہے تو بہتر ہے؛ بس یہی بات مناسب ہے۔ گھر میں دوستانہ ماحول ہو گا تو نوے فی صد سے زائد مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔
بات واضح ہو گئی۔ شکریہ نقیبی صاحب۔محترم شاید آپ میری کہاوت سے مراد مارپیٹ یا ڈانٹ ڈپٹ لے رہے ہیں۔میں بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ میرا کہاوت تحریر کرنے سے مراد یہ ہے کہ بچوں کو لاڈ پیار اور محبت دیں اور ساتھ ساتھ غیر محسوس انداز میں ان پر کڑی نظر بھی رکھیں۔کسی بھی غلطی یا شکایت کے موقع پر گھر سے باہر اور گھر میں موجود افراد کے سامنے سرزیش نہ کریں بلکہ کمرے میں تنہائی کی حالت میں شکایت یا غلطی کے مطابق سرزیش کریں اور انداز ایسا اختیار کریں کے بچے کو یہ محسوس نہ ہو کہ اسے بے عزت کیا جا رہا ہے۔ہمیشہ مہذب رویہ رکھیں تاکہ بچہ آپ یا گھر سے باغی نہ ہو۔
پتہ نہیں کیوں بار بار ہمارا ذہن بھی کہتا ہے کہ یہ Human Trafficking کا معاملہ ہے ۔بچی کا ذہن بالکل نارمل بات نہیں کرتا وہ جتنی بھی بڑی بننے کی کوشش کرے نہیں ۔بات ذہن قبول کرتا نہیں ۔۔۔اللہ پاک اپنا کرم فرمائیں اور کسی بچی کے ساتھ ایسا نہ ہو ۔دل بہت دُکھتا ہے ۔۔۔کیا یہ معاملہ انسانی سمگلنگ کا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو اتنا ہائ پروفائل کیس پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور ایف آئ سے کیسے چھپا رہ سکتا تھا؟ دعا کے والدین کو ایک صوبہ کی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے وفاق میں بھی انہیں کی حکومت ہے اگر شائبہ بھی گزرتا تو اب تک ظہر کا پورا خاندان نظر بند ہوجاتا.
پر بھیا وقت بہت بُرا ہے ۔ہر بُرائی معاشرے میں اس طرح در آئی ہے کہ کہ کچھ لوگ تو اُسے بُرائی سمجھتے ہی نہیں ۔بس مالک سے دعا ہے کہ برُائی سے ہمیں بھی محفوظ رکھے اور آنے والی نسلوں کو بھی محفوظ رکھے آمین۔۔۔ہمیں ہی خیال رکھنا ہے کیونکہ بچے ہمارے ہی ہیں معاشرے میں موجود برائیوں سے خود اور بچانا ہے اور بچوں کی ذہن سازی کرنی ہے کہ جو غلط ہے وہ غلط ہے۔
السلام علیکم
دعاء زہرا کیس کے متعلق سوال بہت سے ہیں لیکن ان سوالات کا تعلق جہاں لوگ تربیت سے بنا کر والدین کو قصور وار ٹھہرا رہے ہیں ، وہیں ایسے ساتھیوں کی بھی کمی نہیں ہے جو موبائیل کی لت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ سوال کیا جاتا ہے کہ جی لڑکی کی عمر کیا ہے چودہ برس؟ نہیں نہیں اٹھارہ برس؟ نہیں نہیں سولہ سترہ برس ؟ نہیں نہیں سولہ برس سے زیادہ سترہ برس کے قریب۔ کم عمر ہے تو والدین کو حق ہے فیصلہ کرنے کا ، نہیں نہیں عمر کم ہے تو بھی والدین دخل نہیں دے سکتے، نہیں نہیں والدین ہی ہٹلر بن گئے ہونگے، نہیں نہیں لڑکی کو ورغلایا گیا ہے، نہیں نہیں دونوں کا چکر تھا ۔ یہ سب باتیں غیر متعلقہ بھی کہلائی جا سکتی ہیں اور نفس الموضوع بھی۔
ایک خود ساختہ سی کہانی سناتا ہوں جس کی کسی سے بھی مشابہت اتفاقی ہوسکتی ہے۔
لیلیٰ کے والدین کی شادی جنوری 2005 میں ہوتی ہے۔ اکتوبر میں لیلیٰ پیدا ہو جاتی ہے ۔ رشتہ دار کہتے ہیں تھوڑا ٹھہر جاتے ہیں لڑکیوں کی عمر کم ہی اچھی ہوتی ہے ۔ سال دو سال بعد پیدائش رجسٹر کروا کر بچی بڑی ہوتی ہے تو گھر میں ہونے والے معاملات ، سختی، پسند نا پسند ، چھوٹے چھوٹے مسائل سے تنگ آ کر وہ گھر سے نکل جاتی ہے۔ کوئی مقصد سامنے نہیں ہوتا پنجاب پہنچ جاتی ہے۔ غلط لوگوں کی نظر پڑ جاتی ہے وہ اسے ساتھ رکھ لیتے ہیں۔ علاقے کا ایک طرح دار زمیندار دیکھ لیتا ہے ان کے چنگل سے نکال کر اپنی بیٹی بنا لیتا ہے۔ لڑکی کے والدین شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہماری نوعمر لڑکی جس کی عمر 14 سال ہے اغوا ہو گئی ہے۔ میڈیا میں موجود ہم خیال لوگ اس بات کو قومی سطح پر اٹھاتے ہیں اور یہ مسئلہ میڈیا پر ہائی لائیٹ ہو جاتا ہے ۔ شور مچ جاتا ہے لڑکے کا باپ لڑکی کو پوچھتا ہے وہ کہتی ہے مر جاؤں گی واپس نہیں جاؤں گی میں جانتی ہوں میرے گھر والے میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ صورت حال دیکھ کر زمیندار اپنے بیٹے سے اس لڑکی کا نکاح کر دیتا ہے۔ لیکن اس دوران وکیل کا مشورہ پیش نظر رکھ کو قانونی ضرورتیں بھی پوری کر دیتا ہے۔ لڑکی کا نکاح ہو جاتا ہے اور اسے نیا گھر مل جاتا ہے دوسری طرف لڑکی کے والدین میڈیا دوستوں کے ذریعے پریشر بنا لیتے ہیں۔ جس کے تحت صوبے کا آئی جی تک اپنی نوکری کے خطرے سے دوچار ہو جاتا ہے۔ آخر لڑکی کا ویڈیو بیان سامنے آتا ہے جس میں وہ اپنی شادی کا اعلان کرتی ہے۔ پنجاب پولیس اسے تلاش کر کے اسکے گھر جاتی ہے ۔لڑکی کو ملتی ہے تو دیکھتی ہے کہ لڑکی نہ گفتگو میں ، نہ جسمانی ساخت میں ، نہ ذہنی طور پر یعنی کسی طرح سے بھی چودہ برس کی نہیں لگتی اور لڑکی کا اپنا بیان بھی یہی ہے کہ وہ چودہ نہیں بلکہ سولہ برس سے زیادہ اور سترہ برس کے قریب ہے (نکاح نامہ پر تقریباً سترہ برس لکھا ہے) اب تمام صورت حال میں وہ لڑکی کا بیان لے کر عدالت میں جمع کروا دیتے ہیں ۔ میڈیا شور مچا رہا ہے کہ لڑکی چودہ برس کی ہے۔ معاملہ سنجیدہ ہے لہذا پنجاب کی عدالت عالیہ ہائی کورٹ صاحب بہادر لڑکی لڑکے کو بمع نکاح خواں اور گواہان کے طلب کر لیتی ہے۔اور حالات و واقعات اور لڑکی کے بیانات اور اس کی جسمانی، ذہنی، دماغی ساخت و ردعمل کی بنیاد پر سمجھ کر کہ لڑکی کی عمر کے معاملے میں میڈیا پر غلط بیانی ہو رہی ہے ۔ لڑکی کی مرضی کے مطابق اسے اپنے خاوند کے ساتھ جانے کی اجازت دے دیتی ہے۔ اس دوران سندھ میں بھی عدالت عالیہ ہائی کورٹ صاحب بہادر ازخود نوٹس لے کر پولیس کو حکم دیتے ہیں کہ لڑکی کو برآمد کر کے پیش کیا جائے۔ پراسیس میں وقت لگ جاتا ہے ۔ میڈیا میں موجود دوست احباب کے دباؤ میں عدالت آئی جی سندھ کی نوکری کھا جانے کی دھمکی دیتی ہے اور پھر آخر کار پنجاب پولیس سے مدد مانگ کر سندھ پولیس لڑکی لڑکے اور نکاح خواں بمعہ گواہان کے سندھ کی عدالت عالیہ ہائی کورٹ صاحب بہادر میں پیش کرتے ہیں۔ عدالت لڑکی کی جسمانی حالت دیکھ کر اس سے گفتگو کر کے پھر بھی اسے احتیاطا دو وجوہات سے دارالامان بھیجتی ہے پہلی یہ کہ اگر یہ لڑکی کسی دباؤ میں ہے تو اس کے اثر سے نکل جائے دوسری اس کا طبی معائینہ کیا جا سکے کہ اس کی عمر کیا ہے ۔اس دوران نکاح خواں ، گواہان اور لڑکا سب حوالات میں رکھے جاتے ہیں جہاں اثرو رسوخ سے پہلے نکاح خواں کو نکاح رجسٹر نہ کروانے کا مجرم کہا جاتا ہے پھر آخر اسے اس بات پر راضی کر لیا جاتا ہے کہ وہ نکاح کروانے سے ہی مکر جائے۔دوسری طرف ایک اور گواہ کو یہ کہہ کر اپنی گواہی سے انکاری کر دیا جاتا ہے کہ نکاح خواں ہی مکر گیا ہے تو تم نے گواہی کس نکاح میں دی ہے۔ بندہ پہلے ہی اس سارے چکر میں مفت کی خواری کاٹ کر تنگ پڑ چکا ہے اس وعدے کا یقین کر لیتا ہے اور اپنی گواہی سے مکر جاتا ہے اب ایک گواہ اور نکاح خواں مکر چکے ہیں اور لڑکی لڑکے میں مفارقت ہو چکی ہے کل عدالت میں پیشی کے بعد تو سب ٹھیک ہو جانا چاہیئے۔ لڑکی کی رپورٹ آتی ہے کہ لڑکی سولہ سے زیادہ سال کی ہے اب قانونی پوزیشن مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ لڑکی کا نکاح قانونی ہے ۔ نکاح خواں اور گواہ عدالت میں تمام صورت حال بیان کر دیتے ہیں ۔ عدالت حالات و واقعات کی بنیاد پر لڑکی کو اپنے نئے گھر جانے کی اجازت اس بنیاد پر دے دیتے ہیں کہ نکاح جس صوبہ میں ہوا وہاں کے قوانین کے مطابق درست ہے ۔ البتہ رجسٹریشن نہ ہوئی ہونے کی وجہ سے جو کوتاہی ہوئی ہے وہ بوجہ قانونی مدت کے بقاء کے ابھی جرم کی صورت اختیار نہ کی ہے۔البتہ گواہ اور مولوی کے بیان جو پولیس کی حراست میں دیا گیا تھا کو بنیاد بنا کر میڈیا پر پھر شور مچایا جاتا ہے۔ لیکن عدالت عالیہ سندھ ہائی کورٹ کو فیصلہ قانون اور شواہد کے مطابق کرنا ہے نہ کہ خواہشات کی بنیاد پر کیونکہ یہی فیصلہ پنجاب ہائی کورٹ کو بھی بھیجا جانا ہے۔ جیسے ہی یہ فیصلہ ہوتا ہے تو لڑکی کے والدین اور ان کے ساتھی شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ فیصلہ غلط ہوا ہے۔ لڑکی کی عمر کا ثبوت کاغذات پر دیکھنے کی بجائے اپنا ہی ٹسٹ کرایا گیا تھا وغیرہ وغیرہ ۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا لڑکی کو واپس بھیجنا اس کے بہترین مفاد میں ہے یا نہیں اور یہ مفاد کون طے کرے گا ۔ لڑکی؟ لڑکی کے والدین؟ یا پھر عدالت موجود ثابت شدہ حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی۔ لڑکی کے والدین کا کیس لڑکی کے ان کے خلاف ہونے کی وجہ سے اور موجود عمر کے کاغذات کا سامنے موجود لڑکی کی بادی النظر میں عمر کے مطابق نہ ہونا اور نکاح کا دوسرے صوبے میں ہونا جسے قانونی تحفظ حاصل ہے ایسے فیصلہ کن عوامل ہیں جن کی بنیاد پر عدالت ہائے عالیہ پنجاب و سندھ اور دونوں صوبوں کی پولیس کی رپورٹس جس میں سی سی ٹی وی فوٹیج بھی شامل ہے جس میں لڑکی اکیلی نکل کر جاتی ثابت ہو رہی ہے تو فیصلہ اس کے علاوہ کیا آنا تھا۔
2005 کی شادی کو 2022 میں سترہ برس مکمل ہو جاتے ہیں جس سے کم از کم لڑکی کا سولہ برس کی ہونا ممکن ہے اور سولہ برس کی لڑکی کی شادی پنجاب کے قوانین کے مطابق بالکل درست ہے۔
اس کہانی کو جو مکمل طور پر فرضی ہے۔ ذہن میں رکھیں تو دعاء زہرا کے کیس کا ایک منظر نامہ سامنے آتا ہے ۔ جو ہو سکتا ہے اس کے عین مطابق نہ ہو لیکن اس کے قریب قریب ضرور ہو سکتا ہے ۔ اس سب میں کیا عوامل ہو سکتے ہیں جن سے یہ مسئلہ پیدا ہوا
1۔ آج کے بچے ہمارے غلام نہیں ہیں نہ ہی وہ ہماری مرضی ماننے کے قانونا پابند ہیں
2۔ ہم کب انہیں الگ مکمل انسان سمجھنا شروع کریں گے بجائے اپنی ملکیت سمجھنے کے؟
3۔ ان کی ضروریات پورا کرنے کی دوڑ میں ہم کہیں انہیں خود سے دور تو نہیں کر بیٹھے؟
4۔ کھانا پینا، سونا ٹی وی ، میک اپ ، شادیاں بس؟؟ ان بچوں کی اور کوئی ضرورت نہیں ہے؟
5۔ بچیوں کی تربیت ان کی ہوش سنبھالنے سے شروع ہوتی ہے اور وہ وعظ سے زیادہ سامنے نظر آنے والی مثالوں یعنی والدین کو نقل کرتے ہیں لہذا ہمیں خود ایک مثال بننا ہوگا اگر ہم بچوں کو کسی خاص ڈھب پر ڈھالنا چاہتے ہیں گو کہ یہ ضمانت نہیں ہے کہ ایسا ہی ہوگا لیکن ہاں اس سے فرق ضرور پڑتا ہے
بات دعا زہرہ پر فوکس ہوتی جا رہی ہے اور دھاگے کا مقصد پیچھے رہتا جا رہا ہے۔ تھوڑی سی ری وائینڈ کرنے سے ہم واپس پہلی سیڑھی پر چلتے ہیں جہاں اکمل بھائی نے مندرجہ ذیل سوالات کی طرف اشارہ کیا تھا۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ میں اس سلسلے میں کیا نقطہ نظر رکھتا ہوں
سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ وہ ایک مکمل الگ شخصیت ہیں جو آپ سے سیکھ کر اس دنیا کو ڈیل کریں گے ۔ ان کی شخصیت پر آپ کے علاوہ آپ کے گھر کے ماحول، جس علاقے محلے میں وہ پل بڑھ رہے ہیں اس ماحول ، لوگوں پھر اسکول مدرسے کے ساتھیوں اور ان کے ماحول کے اثرات ہونگے ۔ایسے میں حاکمانہ رویہ یا حد سے زیادہ لاپروائی کے نتائج ہونگے۔ ان کی ضروریات میں یہ احساس کہ اپنے گھر میں میں سب سے زیادہ محفوظ ہوں ، میری بات میرے گھر میں سنی اور سمجھی جاتی ہے اور میرے والدین یا سرپرست یا گھر میں کوئی گھر کا فرد میری ہر بات کو سمجھتا اور خیال رکھنے والا ہے ۔ انسانی تربیت ایک فرد کی نہیں بلکہ گھر، خاندان، محلے، سکول ، دوست ان سب کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے جس میں بڑا کردار والدین اور گھر خاندان کا ہے۔
بالکل منع نہ کریں بلکہ استعمال کو ریگولیٹ کریں ، استعمال آپ کی نگرانی میں آپ کے سامنے ہو بغیر اس احساس کے کہ آپ اس پر تھانیدار ہیں۔ بچہ غلطی کر رہا ہو تو منطقی استدلال کے ساتھ اسے سمجھائیں ۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ ۔ کہہ دیا تو بس کہہ دیا
بچوں کے ساتھ اپنی تربیت کا بھی خیال کریں۔ ان کے معصومانہ سوالوں کو سن کر بجائے غصہ ہونے کے محبت سے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے سوالوں کے جواب دیں اور ایسے جواب دیں جو ان کی عمر کے مطابق سمجھ آجائیں۔ میرا بیٹا طلحہ سات سال کا تھا تو اپنی والدہ سے پوچھنے لگا ماما۔ یہ پریگننسی کیا ہوتا ہے؟ والدہ کو جواب سمجھ نہ آیا تو اسے جھڑک دیا ۔ بکواس نہ کر ایسی باتیں نہیں پوچھتے۔ ابھی تم بہت چھوٹے ہو۔ میں رات کو واپس آیا تو بچے کا موڈ دیکھ کر سمجھ گیا آج اس کی لتر پریڈ ہوئی ہے۔ پیار سے سینے پر لٹایا اور پوچھا کیا ہوا تھا۔ بچہ تھوڑی سی جھجک کے بعد مان گیا کہ یہ سوال میں نے ماں سے پوچھا تھا اور یہ جواب سننے کو ملا۔اب سات سال کا بچہ (اب وہ ماشاء اللہ ایک جوان آدمی ہے) یہ سوال پوچھے تو اس کی سمجھ کے مطابق ہی جواب دینا ہے۔ جواب دیا تو کہا یار تم سوال شوال مجھ سے پوچھ لیا کرو ماما سے پوچھا ہی نہ کرو اب میں بتاتا ہوں کہ پریگنینسی کیا ہوتی ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ کسی گھر میں بے بی دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس سے پہلے کہ بے بی اس گھر میں آجائے اس گھر کی جو ماما ہونی ہوتی ہے اسے کچھ نشانیاں ملتی ہیں جو تھوڑے تھوڑے ٹائم میں ماما کے بیمار ہونے اور بیلی بڑی ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں ۔ اس ٹائم کو جس میں یہ ساری نشانیاں آتی ہیں اس ماما کے لئے پریگنینسی کہتے ہیں۔بچے کو جواب مل گیا، لیکن کتنے ہیں جو بچوں سے ایسا ماحول اور آبزرویشن رکھتے ہیں۔ یہ آج کی ضرورت ہے
چور کا کام ہے چوری کرنا اور اس کا وقت آئے گا تو سزا بھی اسے ضرور ملے گی ۔ زندگی رکتی نہیں ہے اس چوری سے سیکھئیے اور آئیندہ جو پاس بچا ہوا ہے اسے بچا کر کیسے رکھنا ہے۔ غفلت کا نوحہ پڑھتے رہنے کی بجائے اسباب کو دیکھیں اور آئیندہ کے لئے اس سے بچیں۔ اپنی یا کسی کی غلطی سے سیکھنا ہی سمجھ داری ہے۔
سر قانونی طور پر مائنر کی تعریف ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ایک طرف اٹھارہ سے کم عمر مائنر ہے تو دوسری طرف اسی مائنر کا کیا ہوا معاہدہ عقد نکاح قانونی ہے۔ ولی باپ ہونا اس کی ضروریات کی حد تک ہے اس کی زندگی کے فیصلے کرنے کا نہیں ۔1993 میں ایک بڑے عالم کی دختر نیک اختر کے متعلق عدالت یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ولی امر کا مفہوم اس کی مرضی کے خلاف اس کی زندگی کا فیصلہ کرنا ہرگز نہیں ہے۔البتہ ولی امر کا مفہوم اس کی زندگی کی ضروریات کا خیال رکھنا اور انہیں پورا کرنا ضرور ہے۔ مطلب ولی امر ہونے کا مفہوم بچے کی غلامی نہیں ہے بلکہ ولی پر بارِ ذمہ داری ہے
قانون کے الفاظ دیکھ لیں
Under the Islamic law marriage is a civil contract and a Muslim girl is competent to conclude it on attaining puberty which, in the absence of evidence to thecontrary, is presumed on the completion of the age of fifteen years.
اسلامی قانون کے مطابق شادی ایک سول کانٹریکٹ ہے اور ایک مسلمان لڑکی بالغ ہونے پر ایسا معاہدہ کرنے کی اہل ہے۔ بلوغت جو اس کی عمر کے پندرہ سال پورے ہونے پر سمجھی جائے گی ماسوائے اس کے کہ اس کے خلاف کوئی اور دلیل نہ ہو۔
اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھی جائے کہ شرعا بلوغت کی بات ہو رہی ہے جو پاکستان میں تو بارہ برس کی بچیوں کو بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی دلیل مخالف ہوتی ہے تو وہ بارہ-تیرہ-چودہ-پندرہ برس کی عمر میں شادی ہونے کی صورت میں اس شادی کے حق میں جائے گی ماسوائے اس کے کہ جسمانی تعلق کی کم از کم عمر سولہ برس یا پندرہ برس کا اکتمال ہدف قانون ہے۔ اس سے کم پر دوسرے قوانین کے ذریعے رکاوٹ ڈالی جا سکتی ہے۔ لیکن نہ شادی فسخ ہوگی نہ نکاح غیر موثر ہوگا البتہ رخصتی نہیں ہو سکے گی سولہ برس سے کم عمر پر اور اسی نکتے پر دعا زہرہ کے والدین کی پوری جنگ قائم تھی کہ لڑکی 14 برس کی ہے ۔ جبکہ لڑکی عدالت میں پیش ہو کر اپنے بالغ، پندرہ برس کے اکتمال سے زیادہ ، اور برضا و رغبت شادی کو جسمانی و قانونی طور پر ثابت کر چکی ہے۔ یہی وجہ تھی کی عدالت اسے واپس خاوند کے ساتھ بھیجنے پر مجبور تھی
A girl who has attained puberty may contract marriage with a man of her choice and it is not necessary for her to obtain the consent of her Wali.
ایک لڑکی جو بالغ ہو چکی ہے اپنی مرضی سے ازدواجی معاہدہ قائم کر سکتی ہے اور ولی کی رضامندی حاصل کرنا اس کے لئے ضروری نہیں ہے۔
Marriage with a minor who is below sixteen is not invalid but the person concerned may be prosecuted for an offence under section 363 PPC and/or the Child Marriage Restraint Act, 1929.1
سولہ برس سے کم عمر کی صورت میں شادی فسخ نہیں ہے لیکن اس میں ملوث افراد کے خلاف قانون کی دفعہ 363 ت۔پ اور/یا بچگانہ شادی امتناع ایکٹ 1929 کے تحت کاروائی ہو سکتی ہے۔
ان پابندیوں کے ہوتے ہوئے عدالت کو قصوروار ٹھہرانا لاعلمی کا نتیجہ ہے۔
بہت زبردست۔ آپ نے بہت تفصیلی اور جامع گفتگو کی۔دعا زہرہ اور ظہیر کا ایک انٹرویو دیکھا دونوں کی باتیں تقریباً سچ ہیں ایک بات غلط لگتی ہے جیسے دعا بغیر ظہیر کو بتاے لاہور پہنچ گئ، غالباً یہ بیان ظہیر کو قانون سے بچانے کے لئے دیا گیا ہوگا.
دعا کا یہ کہنا کہ والدین کو ظہیر سے نکاح کا بتانے پر اسے مارا گیا اور اسکا ٹیب(فون) لے لیا گیا یہ والدین کی پہلی غلطی تھی کیونکہ وہ پب جی کی عادی تھی. نشئ سے نشہ چھیننے پر اسکا عمل جارحانہ ہوتا ہے بچی نے سوچا ہر چیز چھن چکی آخری سہارا ظہیر ہے تو وہ وہاں پہنچ گئ. دعا کے والدین کو فوری طور پر ماہر نفسیات کی مدد لینا چاہیے تھی.
کیا یہ معاملہ انسانی سمگلنگ کا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو اتنا ہائ پروفائل کیس پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور ایف آئ سے کیسے چھپا رہ سکتا تھا؟ دعا کے والدین کو ایک صوبہ کی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے وفاق میں بھی انہیں کی حکومت ہے اگر شائبہ بھی گزرتا تو اب تک ظہر کا پورا خاندان نظر بند ہوجاتا.
دعا کے والدین ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ ماں باپ تکلیف میں ہیں. مرضی کے بغیر کوی معمولی سی چیز بھی بغیر اجازت اٹھا لی جاے اور دوسرا شخص کسی صورت واپس کرنے پر آمادہ نہ ہو تو مالک کیسا محسوس کرے گا؟ یہ تو پھر بطن سے پیدا ہوی بچی ہے دعا کے ماں باپ کیسے یہ برداشت کر لیں کہ ان کی مرضی کے خلاف ہر طرح سے ان کے میعار پر پورا نہ اترنے والا لڑکا (تقریباً دشمن) ان کی بیٹی پر حق ملکیت جتاے اور ماں جس نے بیٹی کو جنم دیا اس کا کوی اختیار ہی نہ ہو؟
والدین کی تمام کوتاہیوں کے باوجود میں بچوں کے عمل کو غلط ٹھہراوں گا.
والدین اسٹیٹ آف ڈینائل میں کیوں؟
ماں باپ دراصل اپنی لخت جگر کی محبت کی وجہ سے ان لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں جنہوں نے اسے دعا کے والدین نہیں بلکہ ایک پورے فرقے کی عزت پر حملہ تصور کرلیا ہے. دعا کے والدین کو پیار محبت سے لڑکی کو اپنے قریب کرنا چاہیے ضد اور انا بعض اوقات انسان کو حقیقت سے دور کردیتی ہے اور غیر حقیقت پسندی انسان کو کہیں کو نہیں چھوڑتی.
اسامہ شرافت
دیکھیں معاشرے انفرادی لوگوں سے بنتا ہے اگر ہم اپنی انفرادی کوشش پر نظر رکھیں گے اور پھر اپنے گھروں کو ٹھیک رکھیں اور پھر ایک دوسرے کو مشورے دیں تو ہی معاشرے اچھے بنیں گےپر بھیا وقت بہت بُرا ہے ۔ہر بُرائی معاشرے میں اس طرح در آئی ہے کہ کہ کچھ لوگ تو اُسے بُرائی سمجھتے ہی نہیں ۔بس مالک سے دعا ہے کہ برُائی سے ہمیں بھی محفوظ رکھے اور آنے والی نسلوں کو بھی محفوظ رکھے آمین۔۔۔
پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں ۔
نادرا کے ب فارم کی بنیاد ہسپتال کا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے یا پھر علاقے کی میونسپلٹی کا سرٹیفکیٹ ، اس سے بھی کچھ پڑتال کی جاسکتی تھی کیوں کہ پیدائش کے وقت ایسے کسی ممکنہ وقعے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ یہ کسی وقت عدالتی یا قانونی شہادت میں استعمال ہو گا۔میں اس مسئلے کے اخلاقی پہلو کو چھوڑتے ہوئے اس کے قانونی پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
عدالت نے لڑکی کی عمر کے تعین کے لیے نادرا کے سرٹیٍیفکیٹ (ب فارم) کو حجت کیوں نہیں مانا؟ اور کیوں کہا کہ ریڈیالوجسٹ سے لڑکی کی عمر کا تعین کروایا جائے اس لیے کہ ب فارم جعلی ہو سکتا ہے؟ ب فارم اگر جعلی تھا تو پھر لڑکی کی ولدیت اور قومیت کا تعین عدالت نے کیسے کیا؟
کیا ثبوت ہے کہ لڑکی مدعی ہی کی بیٹی ہے تو جواب ہے ب فارم۔وہ تو جعلی ہو سکتا ہے تو عدالت نے ڈی این اے ٹیسٹ کیوں نہیں کروایا؟
کیا ثبوت ہے کہ لڑکی پاکستان کی شہری ہے تو جواب ہے کہ ب فارم۔ وہ تو جعلی ہو سکتا ہے تو عدالت اس کے لیے کونسا ٹیسٹ کروائے گی؟
میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ ب فارم ایک قانونی دستاویز ہے، اور ب فارم کے اوپر لکھا ہوتا ہے کہ "یہ سرٹیفیکیٹ درج بالابچے / بچوں کی شناخت اور مذکورہ بالا کوائف و معلومات ثابت کرنے کے لیے قانونا بروئے دفعہ (6)9 نادرا آرڈی نینس مجریہ سنہ 2002ء بطور ثبوت قابل قبول ہے "۔
اب اگر عدالت نے ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ کہہ دیا ہے کہ لڑکی کی عمر چودہ سال نہیں بلکہ سترہ سال ہے تو کیا ایک سال بعد:
لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے نادار آفس چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا شناختی کارڈ بنائیے تو کیا وہ بنا دیں گے؟
لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے ٹریفک پولیس کے پاس چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا ڈرائیونگ لائسنس بنا دیں تو کیا وہ بنا دیں گے؟
لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے الیکشن کمیشن میں چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا ووٹ بنائیے تو کیا وہ بنا دیں گے؟
اس کی بات کسی بھی صورت میں نہیں مانی جائے گی بلکہ ب فارم پر درج عمر کے مطابق ہی سب فیصلے ہونگے۔ جب ہر جگہ ب فارم کے کوائف کے مطابق ہی فیصلے ہونے ہیں اور یہی واحد قانونی دستاویز ہے تو پھر عدالت نے اسے کیوں نہیں مانا۔ اس کیس میں ب فارم ہی کو حجت ہونا چاہیئے تھا، عدالت کا کام تھا کہ نادرا سے دریافت کرتی کہ کیا سرٹیفیکیٹ اصلی ہےاور کیا اس پر لکھے کوائف درست ہیں اور اگر نادرا تصدیق کر دیتا تو بات ختم ہو جاتی۔
عمر کے تعین کے لیے ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ مانگی جاتی ہے لیکن ان کیسز میں جن میں ملزم کے بالغ یا نا بالغ ہونے کی صورت میں سزا میں واضح فرق ہوتا ہے نہ کہ ہر کیس میں۔ اس طرح تو عدالت نے ب فارم کی قانونی حیثیت ہی ختم کر دی ہے۔
آپ کے نکات کوموضوع گفتگو بناتے ہوئے:میں اس مسئلے کے اخلاقی پہلو کو چھوڑتے ہوئے اس کے قانونی پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
عدالت نے لڑکی کی عمر کے تعین کے لیے نادرا کے سرٹیٍیفکیٹ (ب فارم) کو حجت کیوں نہیں مانا؟ اور کیوں کہا کہ ریڈیالوجسٹ سے لڑکی کی عمر کا تعین کروایا جائے اس لیے کہ ب فارم جعلی ہو سکتا ہے؟ ب فارم اگر جعلی تھا تو پھر لڑکی کی ولدیت اور قومیت کا تعین عدالت نے کیسے کیا؟
کیا ثبوت ہے کہ لڑکی مدعی ہی کی بیٹی ہے تو جواب ہے ب فارم۔وہ تو جعلی ہو سکتا ہے تو عدالت نے ڈی این اے ٹیسٹ کیوں نہیں کروایا؟
کیا ثبوت ہے کہ لڑکی پاکستان کی شہری ہے تو جواب ہے کہ ب فارم۔ وہ تو جعلی ہو سکتا ہے تو عدالت اس کے لیے کونسا ٹیسٹ کروائے گی؟
میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ ب فارم ایک قانونی دستاویز ہے، اور ب فارم کے اوپر لکھا ہوتا ہے کہ "یہ سرٹیفیکیٹ درج بالابچے / بچوں کی شناخت اور مذکورہ بالا کوائف و معلومات ثابت کرنے کے لیے قانونا بروئے دفعہ (6)9 نادرا آرڈی نینس مجریہ سنہ 2002ء بطور ثبوت قابل قبول ہے "۔
اب اگر عدالت نے ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ کہہ دیا ہے کہ لڑکی کی عمر چودہ سال نہیں بلکہ سترہ سال ہے تو کیا ایک سال بعد:
لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے نادار آفس چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا شناختی کارڈ بنائیے تو کیا وہ بنا دیں گے؟
لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے ٹریفک پولیس کے پاس چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا ڈرائیونگ لائسنس بنا دیں تو کیا وہ بنا دیں گے؟
لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے الیکشن کمیشن میں چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا ووٹ بنائیے تو کیا وہ بنا دیں گے؟
اس کی بات کسی بھی صورت میں نہیں مانی جائے گی بلکہ ب فارم پر درج عمر کے مطابق ہی سب فیصلے ہونگے۔ جب ہر جگہ ب فارم کے کوائف کے مطابق ہی فیصلے ہونے ہیں اور یہی واحد قانونی دستاویز ہے تو پھر عدالت نے اسے کیوں نہیں مانا۔ اس کیس میں ب فارم ہی کو حجت ہونا چاہیئے تھا، عدالت کا کام تھا کہ نادرا سے دریافت کرتی کہ کیا سرٹیفیکیٹ اصلی ہےاور کیا اس پر لکھے کوائف درست ہیں اور اگر نادرا تصدیق کر دیتا تو بات ختم ہو جاتی۔
عمر کے تعین کے لیے ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ مانگی جاتی ہے لیکن ان کیسز میں جن میں ملزم کے بالغ یا نا بالغ ہونے کی صورت میں سزا میں واضح فرق ہوتا ہے نہ کہ ہر کیس میں۔ اس طرح تو عدالت نے ب فارم کی قانونی حیثیت ہی ختم کر دی ہے۔
بعینہٖ اسی اصول پر لڑکی کے چودہ برس یا سولہ برس کی ہونے پر منحصر تھا اغوا کا کیس، کم عمری کی شادی کا کیا ، سولہ برس سے کم عمر میں ازدواجی تعلق کی صورت میں جنسی زیادتی کا کیس جس کی زیادہ سے زیادہ سزا موت بھی ہو سکتی ہے۔ لہذا آزاد ذرائع سے تصدیق کروا کر عدالت نے اپنا اختیار استعمال کیا ہے ۔ ب فارم کی قانونی حیثیت اپنی جگہ جہاں کاغذات اور زمینی حقائق میں واضح فرق محسوس ہو تو یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ تصدیق کے لئے کون سا راستہ اختیار کرتی ہےعمر کے تعین کے لیے ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ مانگی جاتی ہے لیکن ان کیسز میں جن میں ملزم کے بالغ یا نا بالغ ہونے کی صورت میں سزا میں واضح فرق ہوتا ہے نہ کہ ہر کیس میں۔ اس طرح تو عدالت نے ب فارم کی قانونی حیثیت ہی ختم کر دی ہے
فیصل بھائی شاید عدالت نے یہ پہلو مدنظر رکھتے ہوئے ریڈیالوجسٹ ٹیسٹ کروایا کہ ہمارے یہاں اکثر اوقات بے فارم بنواتے وقت بچوں کی عمر کم لکھوائی جاتی ہے ۔بعینہٖ اسی اصول پر لڑکی کے چودہ برس یا سولہ برس کی ہونے پر منحصر تھا اغوا کا کیس، کم عمری کی شادی کا کیا ، سولہ برس سے کم عمر میں ازدواجی تعلق کی صورت میں جنسی زیادتی کا کیس جس کی زیادہ سے زیادہ سزا موت بھی ہو سکتی ہے۔ لہذا آزاد ذرائع سے تصدیق کروا کر عدالت نے اپنا اختیار استعمال کیا ہے ۔ ب فارم کی قانونی حیثیت اپنی جگہ جہاں کاغذات اور زمینی حقائق میں واضح فرق محسوس ہو تو یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ تصدیق کے لئے کون سا راستہ اختیار کرتی ہے
بھائی جی اکثر بے فارم بنواتے وقت عمر کم لکھوانا ہمارے معاشرے میں عام ہے دوسری بات اگر لڑکی کی عمر کم بالواقعہ ہے تو ملزم اور اس کے ساتھی مندرجہ بالا مقدمات کا نشانہ بن سکتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ ہائی کورٹ میں تو کیس ہی اغوا کا بنایا گیا تھا جو کہ بالحقیقت بے بنیاد تھا۔ لڑکی اپنی مرضی سے کہیں گئی ہے تو یہ گھر سے فرار تو ہو سکتا ہے لیکن اغوا ہرگز نہیں ۔ یہ بات عدالت میں ثابت ہو گئی کہ لڑکی اپنی مرضی سے گئی ہے۔ پھر مسئلہ آیا عمر کا تو عدالت نے جو مناسب سمجھا طریقہ کار اختیار کیا اور اس کیس میں یہی طریقہ عدالت کو مناسب محسوس ہوا جو انہوں نے اپنا لیا۔ اب یہ بات بھی عدالت تسلیم کر چکی ہے کہ لڑکی سولہ برس سے زیادہ ہے۔ مطلب اغوا، کم عمری کی شادی ، اور ریپ جیسے الزامات سے ملزمان کو اس عدالت سے کلیئرنس مل گئی ہے۔ کیونکہ اگر یہی الزامات درحقیقت ثابت ہو جاتے تو ملزمان میں قید،جرمانے اور شاید سزائے موت بھی ہو سکتی تھی۔ جہاں کسی ملزم کو ایسی سخت سزاؤں کا امکان ہو عدالت ہمیشہ ایسا طریقہ کار اختیار کرتی ہے جس سے کسی بے گناہ پر وہ کیس نہ بنیں اور گناہ گار کے پاس راہ فرار نہ رہے۔ اب اس کیس میں مدعیان کے الزامات جب غلط ثابت ہوگئے تو لڑکی کا معائنہ اس ہی مقصد کے لئے کرایا گیا کہ صرف کاغذات میں ہیرپھیر کی بنیاد پر کسی بے گناہ کو سزا نہ ہو سکے۔ اب اگر نادرا کا ادارہ چاہے تو لڑکی کے والد پر نادرا میں غلط بیانی سے بے فارم بنوانے کی بنیاد پر کیس کر سکتا ہے جس کی سزا زیادہ سے زیادہ تین ماہ قید یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں لیکن ایسا نظر نہیں آتا کہ نادرا کوئی ایسا قدم اٹھائے گا ۔فیصل بھائی شاید عدالت نے یہ پہلو مدنظر رکھتے ہوئے ریڈیالوجسٹ ٹیسٹ کروایا کہ ہمارے یہاں اکثر اوقات بے فارم بنواتے وقت بچوں کی عمر کم لکھوائی جاتی ہے ۔
بہت خوب وارث میاں یہ تاریخی قصۂ یاد دلایا ⭐️⭐️⭐️⭐️⭐️لڑکی نے اسلام قبول کر کے 42 سالہ وکیل سے شادی کر لی۔ پارسی کا نام سر ڈنشا پیٹٹ ہے، لڑکی کا نام رتن بائی اور وکیل موصوف قائد اعظم محمد علی جناح عرف "جے" ہیں۔
سر یہ ہتھیار اور یہی دلائل عدالت میں اپنی بیٹی کے گھر سے بھاگ کر اپنی مرضی سے شادی کرنے پر لڑکی (صائمہ وحید) کے والد مولاناعبد الوحید مقابل( پناہ دہندہ) عاصمہ جہانگیر(1996میں یہ کیس پیش اور اس کا فیصلہ ہوا تھا ) پوری قوت سے چلائے گئے تھے لیکن ہمارے قانون نے شرعاً بالغ لڑکی کے حق خود ارادیت اور ولی کی بے بسی پر مہر قانون ثبت کر دی تھی ۔اور اس کے لئے دلیل بھی وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلے اسی موضوع پر جو 1996 سے قبل ہوچکے تھے ، میں سے دی ۔ ان فیصلوں کے مطابق ولی کی اجازت پسندیدہ عمل تو ہو سکتا ہے لیکن اس کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی یہ پاکستانی قانون تسلیم نہیں کرتا۔ لہذا سوائے بچوں کے ساتھ لگاؤ ، محبت اور گزرتے وقت کے ساتھ خود کو نئی نسل کے مطابق بدلنے کے کوئی اور ہتھیار نہیں بچا۔ یاد رکھیں جب تک کھمبوں سڑکوں مہنگائی اور نوکریوں کے لئے قانون ساز چن چن کر اسمبلیوں میں بھیجتے رہیں گے ۔ یہ سب کچھ ہوتا رہے گا اور قانون میں سدھار یا وقت دین ا و ر ۔ روایات کے مطابق تبدیلی ممکن نہیں ہوگی ۔ایک طرف بھیڑیوں کو پنجروں سے نکال کر قانونی سرٹیفیکٹ دے کر کھلا چھوڑ دیا گیا ہے