دفاع پاکستان ، فخر پاکستان اور مستقبل کے نوجوان

1965کی پاک بھارت جنگ سترہ دن جاری رہی ۔ان سترہ دنوں میں چشم فلک نے اہل پاکستان کا ایک مختلف کردار دیکھا تھا۔ہمدردی اور خیرخواہی اپنے شاہیں صفت فوجی بھائیوں کے ساتھ وارفتگی ، ایمانداری ، دیانتداری ، خلوص و محبت حتی کہ تاجر برادری نے ان دنوں نفع لینا چھوڑ دیا تھا ۔ہر کوئی اپنے اثاثے ، دولت اور سامان اٹھائے جہاد فنڈ میں جمع کرانے کے لئے لا رہا تھا۔۔۔فوج اور پاکستانی قوم میں یکسوئی تھی ۔انہیں لا الہ الا اللہ کے نام سے جہاد میں بھرپور شمولیت کی دعوت دی گئی تھی اور وہ فی الواقع اللہ سبحان تعالی کے پاک نام پر گناہوں سے توبہ استغفار کرتے ہوئے مخلص مسلمان کے روپ میں نمودار ہوئے تھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اہل پاکستان نے “پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ ” کا اصل اظہار انہی سترہ دنوں میں کیا تھا۔”گویا یہ سترہ دن پاکستان کی تاریخ کے روشن ترین اور درخشاں باب ہیں”۔ 1965 کی جنگ میں پاکستانی قوم کا اصل کردار دیکھ کر دشمن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی ۔لہذا پھر سازشوں کا وسیع جال پھیلایا گیا ۔۔۔جس کا نتیجہ 1971 کی پاک بھارت جنگ اور پھر عملا مشرقی پاکستان کی علیحدگی یعنی سقوط ڈھاکہ کی شکل میں سامنے آیا ۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد یہ سازش بڑھتی چلی گئی ۔ یہود کی مکاری ، ہندد کی عیاری اور عیسائیوں کی عسکری قوت و صلیبی جزبہ ان سب نے مل کر ہماری قوم کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر دیا ہم پر “میڈیا ” کے ذریعے ثقافتی یلغار شروع ہو گئی ۔جو ہماری اقدار کو تبدیل کرنے کی سازش تھی ۔ہم میں ہندوانہ اور فرنگیانہ تہذیب کو زیادہ سے زیادہ نفوذ کروانے کی سازش ثقافتی تبادلے ، این جی اوز کے وفود اور ہمارے نظام تعلیم کو زیادہ سے زیادہ مغربی رنگ دینے کی کوشش یہ سب اسی منصوبے کا حصہ تھی۔اوپر سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سودی قرضے ہمیں اپنے شکنجے میں کستے جارہے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری نئی نسل جو گھروں میں میڈیا میں مشغولیت کے سبب سے دینی تعلیم و تربیت سے محروم ہورہی تھی اور تعلیمی اداروں میں یہی لبرل اور سیکولر تعلیم سیکھ رہی تھی ۔آہستہ آہستہ انہی ہندو اور مغربی اقدار کی اسیر ہوتی چلی گئی ۔ہمارے پرانے ادب و آداب اور اقدار رخصت ہوتے چلے گئے اور ہماری نئی نسل ہندو نواز اور مغرب نواز بننے لگی۔ان کی زبان ، لباس ، آداب و اطوار سے محبت کرنے لگی ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں گفتگو میں انگریزی الفاظ کی بھرمار ہوگئی اور آج کل ہندی الفاظ کا ریڈیو، ٹی وی پر استعمال بکثرت نظر آرہا ہے ۔ پاکستان کی نوجوان نسل کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ مسلمان ہیں کہ ہندو/ عیسائی ہیں ۔ پھر آخر یہ نسل اُدھر جاکہ آباد ہونے کو اپنا آئیڈیل قرار دے لیتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہےکہ نوجوانوں کے پاس قوت اور کام کر گزرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے کر سکتاہے برعکس بوڑھوں کے ، کہ ان کے صحیح اور غلط کی پہچان تو بڑھاپے میں ہوتی یا ہونے لگتی ہے ۔ اگر نوجوان اپنے لئے کوئی دنیاوی نصب العین طے کر لیں مثلا اعلی تعلیم کا حصول سائنسی تحقیق اور ایجادات کے لئے کوشش و محنت تو وہ راتوں کو جاگ سکتے ہیں دن کو دوڑ دھوپ کر سکتے ہیں اور اپنے مقاصد کو پا سکتے ہیں تو جس قوم کے بیشتر نوجوان محنت پابندی اوقات ، نظم و ضبط وغیرہ کے عادی ہوں وہ قوم ضرور بام عروج و ترقی سے ہمکنار ہوتی ہے ۔آج دشمن نسل نو کو ایمان حیا اور جہاد جیسی نعمت سے بیگانہ کرنے والی چالوں میں کامیاب ہو گئے تو پھر پاکستان بلکہ بھارت کے مسلمانوں کی بھی روحانی موت واقع ہو جائے گی ۔ وہ ہندو ، عیسائئ ، سکھ نہ بھی بنیں مگر “مسلمان” نہیں رہ سکیں گے۔پھر پاکستان کی اسلامی ایٹمی جمہوریہ کئی چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں بٹ کر بھارت کی ماتحتی میں چلی جائے گی اور باوقار اور خوددار مسلمان کی حیثیت سے زندگی نہیں گزار سکیں گے ۔وہ غلام ہونگےاور بھارت کے موجودہ مسلمانوں سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہونگے۔ اللہ ہمیں اپنے اور اپنے حصے کی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کرنے کی توفیق دے ۔آمین
اللہ سرزمیں پاک کے تمام مسلمانوں کو اپنی حفط و امان میں رکھے اور بہت خاص و خاص کام لے اور دشمن کی بد نگاہی انہی پہ واپس پلٹ دے ۔۔۔۔۔ آمین۔۔۔
پاکستان زندہ باد
مصنف : شہلاصدیقی
 

زیک

مسافر
یہ الف لیلوی داستان ہے اس کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔
any resemblance to actual events is purely coincidental
 

سید عمران

محفلین
ہاں جی عدنان۔۔۔
مسلمانوں کی زبوں حالی کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ نری خام خیالی ہے۔۔۔
اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں!!!
 
یہ الف لیلوی داستان ہے اس کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔
any resemblance to actual events is purely coincidental
ہاں جی عدنان۔۔۔
مسلمانوں کی زبوں حالی کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ نری خام خیالی ہے۔۔۔
اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں!!!
بھائی صاحبان آپ کا تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔:)
 
Top