مہدی نقوی حجاز
محفلین
دف کیسے مارا جاتا ہے
یوں تو دنیا میں غیبت سے زیادہ زود ہضم کوئی چیز نہیں لیکن یہ کباب بھی حلق سے اترتے ہی جزو بدن ہو جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ گولے کے کباب میں ایک حصہ قیمہ، ایک حصہ مرچیں اور ایک حصہ دھاگے پڑتے ہیں۔ سیخ سے اتار کے کڑاکڑاتے گھی کا بگھار دیتے ہیں۔
"سیخ کباب میں بھگار؟ یہ کس خوشی میں؟" ہم نے پوچھا۔
"اس سے مرچوں کا دف مرجاتا ہے۔ ساتھ بھرت کی سبک سی کوڑی میں گرم مصالحہ رکھ دیتے ہیں۔ پھر کبابوں میں بکری کا بھیجا اور الھڑ بچھڑے کی نلیوں کا گودا علیحدہ سے ڈالتے ہیں۔"
_ یہ کیوں؟
"اس سے گرم مصالحہ اور جائفل جاوتری کا دف مرجاتا ہے۔ پھر بڑی پیاز کے لچھے اور ادرک کی ہوائیاں۔ اور ان پر ہری مرچیں کترکے ڈالتے ہیں۔ یہ میسر نہ ہوں تو محض سی سی کرنے سے بھی لذت بڑھتی ہے۔ خمیری نان کے ساتھ کھاتے وقت برف کا پانی خوب پینا چاہئے۔"
_کیوں؟
"برف سے خمیری روٹی اور ہری مرچوں کا دف مرتا ہے۔ مصلح ہے۔ بعض نفاست پسند تو کبابوں پر تتیّا مرچ کی چٹنی چھڑک کر کھاتے ہیں۔ پھر حسب حیثیت دہی بڑے یا قلفی فالودے کی ڈاٹ لگاتے ہیں۔"
_کیوں؟
"اس سے چٹنی کا دف مرتا ہے۔"
_اگر یہ سارے چونچلے فقط کسی نہ کسی کا دف مارنے کے لئے ہیں تو چٹوروں کی سمجھ میں اتنی بات کیوں نہیں آتی کہ یکے بعد دیگرے دف مارنے کے بجائے، شروع میں ہی کم مرچیں ڈالیں یا پھر زبان پر ربر کا دستانہ چڑھا کر کھائیں۔
(بعد از آں اسی نکتہ راز کو انہوں نے اپنے بقراطی انداز میں یوں ذہن نشین کرایا کہ)
جوانی دیوانی کا دف بیوی سے مارا جاتا ہے
بیوی کا دف اولاد سے مارا جاتا ہے
اور اولاد کا سائنسی تعلیم سے
سائنسی تعلیم کا دف اپنے ہاں دینیات سے مارا جاتا ہے۔
_ارے صاحب! دف کا مرنا کھیل نہیں مرتے مرتے مرتا ہے۔
بادشاہ طنز مشتاق احمد یوسفی کی کتاب "زرگزشت" سے ایک مختصر انتساب پیش خدمت ہے۔
یوں تو دنیا میں غیبت سے زیادہ زود ہضم کوئی چیز نہیں لیکن یہ کباب بھی حلق سے اترتے ہی جزو بدن ہو جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ گولے کے کباب میں ایک حصہ قیمہ، ایک حصہ مرچیں اور ایک حصہ دھاگے پڑتے ہیں۔ سیخ سے اتار کے کڑاکڑاتے گھی کا بگھار دیتے ہیں۔
"سیخ کباب میں بھگار؟ یہ کس خوشی میں؟" ہم نے پوچھا۔
"اس سے مرچوں کا دف مرجاتا ہے۔ ساتھ بھرت کی سبک سی کوڑی میں گرم مصالحہ رکھ دیتے ہیں۔ پھر کبابوں میں بکری کا بھیجا اور الھڑ بچھڑے کی نلیوں کا گودا علیحدہ سے ڈالتے ہیں۔"
_ یہ کیوں؟
"اس سے گرم مصالحہ اور جائفل جاوتری کا دف مرجاتا ہے۔ پھر بڑی پیاز کے لچھے اور ادرک کی ہوائیاں۔ اور ان پر ہری مرچیں کترکے ڈالتے ہیں۔ یہ میسر نہ ہوں تو محض سی سی کرنے سے بھی لذت بڑھتی ہے۔ خمیری نان کے ساتھ کھاتے وقت برف کا پانی خوب پینا چاہئے۔"
_کیوں؟
"برف سے خمیری روٹی اور ہری مرچوں کا دف مرتا ہے۔ مصلح ہے۔ بعض نفاست پسند تو کبابوں پر تتیّا مرچ کی چٹنی چھڑک کر کھاتے ہیں۔ پھر حسب حیثیت دہی بڑے یا قلفی فالودے کی ڈاٹ لگاتے ہیں۔"
_کیوں؟
"اس سے چٹنی کا دف مرتا ہے۔"
_اگر یہ سارے چونچلے فقط کسی نہ کسی کا دف مارنے کے لئے ہیں تو چٹوروں کی سمجھ میں اتنی بات کیوں نہیں آتی کہ یکے بعد دیگرے دف مارنے کے بجائے، شروع میں ہی کم مرچیں ڈالیں یا پھر زبان پر ربر کا دستانہ چڑھا کر کھائیں۔
(بعد از آں اسی نکتہ راز کو انہوں نے اپنے بقراطی انداز میں یوں ذہن نشین کرایا کہ)
جوانی دیوانی کا دف بیوی سے مارا جاتا ہے
بیوی کا دف اولاد سے مارا جاتا ہے
اور اولاد کا سائنسی تعلیم سے
سائنسی تعلیم کا دف اپنے ہاں دینیات سے مارا جاتا ہے۔
_ارے صاحب! دف کا مرنا کھیل نہیں مرتے مرتے مرتا ہے۔
بادشاہ طنز مشتاق احمد یوسفی کی کتاب "زرگزشت" سے ایک مختصر انتساب پیش خدمت ہے۔