ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو بے گناہ قتل کردے۔ اب قاتل کیلئے سزائے موت ہے، اور اسکا خون مباح ہے۔ قتل ثابت ہونے پر اسکو ضرور قتل کیا جائے گا۔ لیکن اگر مقتول کے وارث کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اس قاتل کو معاف کردے ،اور مقتول کے وارث کے معاف کرنے کے بعد اس قاتل کو سزائے موت دینا جائز نہیں ہے۔ لیکن یہ حق صرف مقتول کے وارث کے پاس ہے ، کسی اور کے پاس نہیں۔لھذا اگر مقتول کے وارث موجود نہ ہوں تو کوئی دوسرا آدمی اس قاتل کے سزاے موت کو نہیں بدل سکتا۔
بالکل ایسے ہی چونکہ شاتم رسول نے نبی کی توہین کی ہوتی ہے تو یہ گستاخ سزائے موت کا حقدار بن گیا ہے۔لیکن اگر نبی کسی حکمت کے سبب اس گستاخ کی اس گستاخی کو معاف کردے تو ظاہر ہے کہ اس شاتم رسول کو سزائے موت نہیں ہوگی۔
اور جس طرح صرف مقتول کے وارث کے پاس قاتل کو معاف کرنے کا حق ہوتا ہے۔بالکل ایسے ہی گستاخ رسول کو معافی کا حق صرف رسول کو ہی ہوتا ہے۔نبی کے علاوہ کسی کو بھی یہ حق حصلی نہیں کہ وہ اہانت رسول کے مرتکب شخص کو معاف کردے۔
ظاہر ہے نبی کی عزت کو اس نے مجروح کیا ہوتا ہے تو معافی کا اختیار بھی صرف نبی کو حاصل ہوگا۔
اور یہی امت مسلمہ کا معمول ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کے وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے لے کر آج کے دور تک امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ گستاخ رسول کو سزائے موت دی جائے گی۔ اور اسی قاعدے کی بنیاد پر ان علماء کا فیصلہ ہے جو کہ گستاخ رسول کی سزائے موت کو توبہ کے بعد بھی بحال رکھتے ہیں۔
نیز نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم صاحب شریعت تھے اور صاحب حکمت تھے۔ انکو معلوم تھا کہ کس کے قتل کرنے میں حکمت ہے اور کس کے قتل نہ کرنے میں۔ لھذا ابن خطل اور اور حویرث کے سزائے موت کو نبی صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے بحال رکھا اور سہل بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جھل کو معاف کیا۔اور بعد میں یہ دونوں سچے دل سے اسلام لائے تھے۔
لہٰذا حضرت ابوہریرہ رضی الللہ عنہ کی والدہ پر اعتراض بھی باطل ہے۔ شریعت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار ساتھیوں کو درست نیت کے ساتھ راعنا کہہ کر بلانے سے بھی منع کرتی ہے، کیونکر ایسا خلا چھوڑ سکتی ہے کہ اس عظیم نبی کی توہین اس سے کہیں بڑے درجے میں ہوتی رہے اور قانون کے ہاتھ بندھے ہوں۔ علمائے امت نے اس موضوع کا کوئی گوشہ تشنہ طلب نہیں چھوڑا کہ اس کے لئے
اس بہانے کا جواب اوپر آرٹیکل میں پہلے سے موجود تھا۔
عذر: رسول (ص) کے علاوہ کوئی معافی نہیں دے سکتا[ترمیم]
رسول اللہ (ص) کی ثابت شدہ سنت سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ آپ نے اپنی توہین کرنے والوں کو معاف کیا اور خیبر، مکہ و طائف وغیرہ فتح ہو جانے کے باوجود ان تمام لوگوں کو قتل نہیں کیا جو آپ (ص) کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے۔
اس پر یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ (ص) کو حق حاصل تھا کہ جو انکی شان میں گستاخی کرے اُسے معاف کر دیں، مگر ہمارے پاس آج یہ حق نہیں ، چنانچہ کسی بھی چھوٹے بڑے توہین کے واقعے کے بعد قتل کی سزا ہر حال میں پوری کی جائے گی۔ مگر یہ عذر بھی لغو ہے کیونکہ :
- رسول (ص) سے براہ راست کوئی ایسی بات بیان نہیں ہوئی ہے کہ وہ توہین رسالت کرنے والوں کو اس لیے معاف کر رہے ہیں کیونکہ یہ انکا حق ہے، بلکہ یہ موجودہ توہین رسالت قانون کے حمایتیوں کی "اپنی طرف" سے گھڑا گیا ایک "نیا بدعتی قیاس" ہے جسکی حیثیت ایک بہانے سے زیادہ نہیں۔
مثلاً ہزاروں اہل مکہ کو رسول (ص) نے فتح مکہ کے وقت معاف کیا۔ اس پر بہانہ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ رسول (ص) کا حق تھا کیونکہ وہ رسول (ص) کی توہین کرتے تھے۔۔۔۔ مگر یہ بہانہ نہیں چل سکتا کیونکہ اہل مکہ فقط رسول (ص) کی ہی توہین نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ اپنے بتوں کے مقابلے میں اللہ کی بھی توہین کرتے تھے، وہ اپنے دین کے مقابلے میں دینِ اسلام کی بھی توہین کیا کرتے تھے۔
- اللہ نے سورۃ آل عمران ، آیت 186 میں صرف رسول (ص) کو ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو صبر وتحمل کرنے کا حکم دیا ہے۔۔
- اور جب حضرت ابوہریرہ کی والدہ نے رسول اللہ (ص) کی شان میں گستاخی کی تو حضرت ابو ہریرہ اس پر شدید رنجیدہ ہوئے، مگر آپ نے انکی اس گستاخی پر عفو و درگذر سے کام لیا، نہ کہ فوراً انکو قتل کر ڈالا۔معاف کرنے کا حق فقط رسول (ص) کا تھا اور ابو ہریرہ کے پاس یہ حق نہیں تھا تو پھر تو جناب ابو ہریرہ کو فی الفور اپنی والدہ کو قتل کر دینا چاہیے تھا ۔ مگر نہیں، وہ یہ حق نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی والدہ کو قتل نہیں کرتے، اور پھر رسول (ص) کے پاس حاضر ہو کر بھی قتل کی بات نہیں کر رہے، بلکہ اللہ کے رسول (ص) سے اپنی والدہ کی ہدایت کی دعا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
- بلکہ موجودہ آرڈیننس کے حامی حضرات کی اپنی پیش کردہ نابینا صحابی اور یہودیہ عورت والی روایات کو بھی صحیح مان لیا جائے تب بھی ان سب سے "الٹا" یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ پہلا قدم عفو و درگذر اور صبر و تحمل اور نیک نصیحت کا ہے، اور یہ عفو و درگذر فقط رسول (ص) تک محدود نہیں بلکہ وہ نابینا صحابی پہلے قدم میں عفو و درگذر کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس روایت میں صاف صاف، بہت صاف طور پر موجود ہے کہ وہ کنیز باندی مسلسل اور بار بار رسول (ص) کی توہین کیا کرتی تھی۔۔۔ اور وہ صحابی معاف کرنے کا حق نہ ہونے کے باوجود اس کنیز باندی کو قتل نہیں کرتے تھے، بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ فقط نیک نصیحت کرتے تھے۔ چنانچہ بذات خود یہ روایت ثابت کر رہی ہے کہ یہ رسول (ص) کے حق کا عذر بنانا ایک "نیا بدعتی" اپنی طرف سے گھڑا گیا بہانہ ہے جسکا ذکر نہ رسول (ص) نے کبھی کیا اور نہ صحابہ کو علم تھا۔
عثمانی صاحب نے البانی صاحب کی بات کا جواب نہیں دیا۔ دونوں حضرات ہی ماورائے عدالت قتل کو تشہیر کر رہے ہیں، اور اسے ایک بہانے یا دوسرے بہانے حلال بنا رہے ہیں۔
البانی صاحب کے فتویٰ کا مطلب:
ماورائے عدالت قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر کسی نے توہین رسالت پر "ماورائے عدالت" قتل کر دیا ہے تو کوئی مسئلہ نہیں اور اس پر کوئی سزا نہیں کیونکہ صحابہ نے جب اپنی کنیز باندی یا پھر یہودیہ عورت وغیرہ کو قتل کیا تو انہیں اسکے لیے کسی گواہ وغیرہ کی ضرورت نہ تھی۔
عثمانی صاحب کے فتویٰ کا مطلب:
ماورائے عدالت قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر ثبوت نہیں بھی ہے تب بھی اللہ کے ہاں یہ کام بہت پسندیدہ ہے۔ جاؤ اور قتل کرو کیونکہ صحابہ نے پہلے کنیز باندی اور یہودیہ عورت وغیرہ کو قتل کیا تھا، اور پھر یہ بات عدالت تک پہنچی تھی۔
عثمانی صاحب سے پھر پوچھنا چاہیے کہ موجودہ قانون میں پھر وہ ترمیم کر دیں اور قانون یہ بنا دیں کہ توہین رسالت دیکھتے ہی صحابہ کی طرح قتل کر ڈالو اور پھر کوئی ثبوت ہے تو عدالت میں پیش کر دو، وگرنہ اللہ کے ہاں تو مقبول ہو ہی جاؤ گے۔۔۔۔۔ بلکہ صرف ایک توہین رسالت ہی کیا، بقیہ جرائم پر بھی پھر فتویٰ دے ڈالیے کہ دیکھتے ہی قتل کر ڈالو، اور بعد میں ضرورت پڑے تو عدالت میں ثبوت دے دینا، وگرنہ اللہ کے ہاں تو مقبول ہو ہی جاؤ گے۔
حقیقت یہ ہے کہ عثمانی صاحب "اللہ کے ہاں مقبول" ہو جانے کے احمقانہ فتوے کے نتائج نہیں جانتے۔ یہ سب سے بڑی ناانصافی ہے کہ جس شخص پر الزام لگایا جا رہا ہے، اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا جا رہا ہے جو کہ انصاف کا قتل ہے۔ اور پاکستان جیسا انتہا پسند ملا انفیکٹڈ معاشرہ کہ جہاں توہین رسالت پر ایک شخص کو سزا نہیں ہوتی بلکہ پورا خاندان ہی اسکی نظر ہو جاتا ہے، جس کی مثال حالیہ کیس میں سامنے آئی جہاں
صرف ماں بننے والی عورت کو ہی موقع پر نہیں قتل کیا گیا، بلکہ اسکے شوہر کو بھی ساتھ میں آگ میں جلا دیا گیا۔
یہ ہے عثمانی صاحب کا انصاف جہاں یہ بچہ بھی پیدا ہونے سے پہلے مارا جائے گا اور ہر وہ شخص جو قریبی رشتے دار ہو گا یا پھر لوگوں کو اس پاگل پن سے روکنے کی کوشش کرے گا۔
بلکہ شاید اس بچے اور اسکی ماں کے قتل کرنے کا سبق بھی عثمانی صاحب نے اس روایت سے لیا ہے:
سنن ابو داؤد کی روایت:
ايك اندھے كى ام ولد ( لونڈى ) تھى جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم اور توہين كرتى تھى، اس نے اسے ايسا كرنے سے منع كيا ليكن وہ نہ ركى، اور وہ اسے ڈانٹتا ليكن وہ باز نہ آئى.راوى كہتے ہيں: ايك رات جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے لگى اور سب و شتم كيا
تو اس اندھے نے خنجر لے كر اس كے پيٹ پر ركھا اور اس پر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا، اس كى ٹانگوں كے پاس بچہ گرگيا، اور وہاں پر بستر خون سے لت پت ہو گيا، جب صبح ہوئى تو اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا گيا اور لوگ جمع ہو گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" ميں اس شخص كو اللہ كى قسم ديتا ہوں جس نے بھى يہ كام كيا ہے اس پر ميرا حق ہے وہ كھڑا ہو جائے، تو وہ نابينا شخص كھڑا ہوا اور لوگوں كو پھلانگتا اور لڑكھڑاتا ہوا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيٹھ گيا اور كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كا مالك ہوں! وہ آپ پر سب و شتم اور آپ كى توہين كيا كرتى تھى، اور ميں اسے روكتا ليكن وہ باز نہ آتى، ميں اسے ڈانٹتا ليكن وہ قبول نہ كرتى، ميرے اس سے موتيوں جيسے دو بيٹے بھى ہيں اور وہ ميرے ساتھ بڑى نرم تھى، رات بھى جب اس نے آپ كى توہين كرنا اور سب و شتم كرنا شروع كيا تو ميں نے خنجر لے كر اس كے پيٹ ميں ركھا اور اوپر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا.تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:خبردار گواہ رہو اس كا خون رائيگاں ہے اس كى كوئى قدر و قيمت نہيں۔
علماء حضرات اس روایت پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اگر وہ اس روایت کے صحیح ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو انہیں مزید ان سوالات کا جواب دینا پڑے گا:
- اس روایت سے بھی موجودہ توہینِ رسالت آرڈیننس ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ایسا نہیں ہوا کہ اُس باندی نے پہلی مرتبہ توہینِ رسالت کی ہو اور اس پر فوراً قتل کر دی گئی ہو۔ بلکہ اس میں صاف طور پر موجود ہے کہ اُس باندی نے عادت اور معمول ہی بنا لیا تھا کہ وہ مستقل رسول (ص) کو بُرا بھلا کہتی تھی۔
- اور وہ صحابی پہلی ہی مرتبہ میں فوراً قتل کر دینے کی بجائے شروع میں عفو و درگذر اور صبط و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستقل اُسے ہدایت کی نصیحت کرتے رہے اور ادب سکھاتے رہے۔
موجودہ آرڈیننس کے حامی حضرات کے سامنے جب اوپر کے واقعات پیش کیے جاتے ہیں جہاں رسول اللہ (ص) نے صبر اور عفو و درگذر سے کام لیا (مثلا حضرت ابو ہریرہ کی والدہ کا واقعہ)، تو وہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ صرف رسول اللہ (ص) کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی ذات پر گستاخی کرنے والے کو معاف کر دیں۔ اور چونکہ آج رسول اللہ (ص) دنیا میں موجود نہیں، اس لیے کسی بھی قسم کی گستاخی پر قتل کی سزا ہر صورت جاری ہو جائے گی۔
مگر انکی اپنی پیش کردہ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نابینا صحابی پہلی مرتبہ میں ہیں فوراً اپنی باندی کو قتل نہیں کر رہے ہیں بلکہ عفو و درگذر سے کام لیتے ہوئے اُسے مستقل نیک نصیحت کر رہے ہیں اور اسے ادب سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس روایت کی روشنی میں انکے اس دعوے کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی اور عفو و درگذر اور معافی کے راستے ہرگز بند نہیں ہیں۔
فورمز پر بحث کی کوئی ضرورت باقی رہ جاتی ہو۔
الصارم المسلول کا مطالعہ ہی کر لیں تو کافی ہے۔
کیا آپ کو علم ہے کہ الصارم المسلول میں ابن تیمیہ صاحب نے بہت سی ضعیف حدیثوں سے قتل جیسی سزا کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؟ بہت سی روایات ایسی ہیں جنکا ابن تیمیہ صاحب نے صحیح حوالہ تک نہیں دیا ہے اور وہ فقط الصارم المسلول میں ہی پائی جاتی ہیں؟
کیا آپ کو ابن تیمیہ صاحب کی اس بددیانتی کا علم ہے جب انہوں نے جناب عمر کے حوالے سے "صحیح روایت" کو نظر انداز کر کے ضعیف روایت کو آگے پیش کیا اور ایسی ہی بددیانتی کی وجہ سے ممتاز قادری جیسے لوگ آج سلمان تاثیر کو شہید کر رہے ہوتے ہیں۔
حضرت عمر ابن الخطاب والی روایت سے دلیل پکڑنا[ترمیم]
یہ لوگ حضرت عمر ابن الخطاب کی اس روایت سے بھی دلیل پکڑتے ہیں۔ اسکی تفصیل ان حضرات کی زبانی یہ ہے:
اس ضمن میں حضرت عمر فاروقؓ کا وہ طرز عمل بھی نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ جس کی تحسین اور تائید میں سورہ النساء کی آیت ٦٥ نازل ہوئی۔ واقعہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں ایک تنازعہ ہوا. نبی کریم صلی اللہ الہی وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا. مسلمان جو کہ در حقیقت منافق تھا اس فیصلے سے مطمین نہ تھا اور حضرت عمر فاروقؓ کے پاس جا کر اپنے حق میں فیصلہ لینے کا ارادہ کیا. سوچا کہ حضرت عمرؓ ایک یہودی کو مسلمان پر ترجیح نہ دیں گے. وہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا کہ کس طرح نبی کریم(ص) نے اس مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا اور وہ منافق اس فیصلے پر مطمین نہ تھا اور حضرت عمر رض سے اپنے حق میں فیصلہ لینا چاہتا تھا. سیدناعمرؓ نے یہ سنا تو تلوار نکالی اور اس منافق کی گردن اڑا دی. اس معاملے کا ہر جگہ ذکر ہوا اور بات پھیل گئی کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مسلمان کا نا حق خون کر دیا . حضرت عمر رسول (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول (ص)! عمر نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو کلمہ پڑھتا تھا، نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا، مگر آپ جانتے ہیں عمر نے کسی مسلم کو قتل نہیں کیا . کیونکہ وہ مسلم ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کو آپکے فیصلے سے اتفاق نہ ہو ”
اللہ سبحانہ تعالیٰ کو سیدنا عمر فاروق کی یہ بات اس قدر پسند آئی کہ حضرت جبرئیل علیہ سلام سورہ نسا کی یہ آیت لے کر نازل ہوئے ؛
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( سورہ النساء – آیت ٦٥ )
[سورۃ النساء 4:65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے.
یہاں سیدنا عمر فاروقؓ کا طرز عمل ایک رہنما طرز عمل ہے جس کی تحسین خود ذات حق نے کی . بغیر کسی ظاہری توہین رسالت کے وہ اتنے حساس تھے ان معاملات میں کہ توہین تو بڑی بات یہ تک گوارا نہیں تھا کہ کوئی نبی کریم(ص) کے فیصلے سے بھی عدم اتفاق کرے ۔
حضرت عمر والی اس روایت کے متعلق اصل حقائق یہ ہیں کہ:
- یہ روایت ضعیف ہے (اس میں ایک روای ابن لهيعة ہے جو ضعیف ہے)
- یہ روایت غریب ہے اور فقط ابن الاسود سے مروی ہے۔
- یہ روایت منکر ہے (یعنی ایسی روایت جو نہ صرف یہ کہ ضعیف ہو، بلکہ کسی صحیح روایت کے مخالف بھی ہو)
- اس روایت کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور روایت پیش کی جاتی ہےجو کہ ضمرة بن حبيب سے مروی ہے۔ مگر ضمرۃ نے رسول اللہ (ص) کا دور نہیں پایا ہے، لہذا یہ لائق اعتماد نہیں۔ (اس راوی کی وفات 130 ہجری میں ہوئی ہے، یعنی رسول (ص) کی وفات کے 117 سال کے بعد)
یہ آیت نازل ہوئی جب صحابی حضرت زبیر اور ایک بدری صحابی حضرت حاطب کے مابین تنازعہ ہوا تھا اور اس کی تفسیر میں امام بخاری نے اپنی صحیح میں پورا واقعہ دوصحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔
سعودی عرب سے اردو میں قران بمع ترجمہ اور تفسیر شائع ہوا ہے (تفسیر کی ہے صلاح الدین صاحب نے)۔ سعودی حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں یہ قرآن چھپا کر مفت تقسیم کیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:
اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا آپ نے صورت حال کاجائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(صحیح بخاری، کتاب التفسیر)
امام بخاری نے یہ واقعہ دو مختلف اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔پہلی
روایت کا لنک یہ ہے۔ دوسری روایت کا
لنک یہ ہے۔
حضرت عمر والی یہ روایت علم درایت کی کسوٹی پر[ترمیم]
عقل اللہ کی طرف سے انسان کو بہت بڑا تحفہ ہے۔ اگر یوں آنکھیں بند کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے روایات پیش کرنے کی بجائے کچھ عقل سے کام لے لیا جائے تو بہت سی ایسی ناگوار باتوں سے بچا جا سکتا ہے۔
اس روایت کے مطابق ایک شخص کو رسول اللہ (ص) کےدنیاوی معاملے کے صرف ایک فیصلے پر اعتراض ہوا تو حضرت عمر نے فوراً بغیر کسی توبہ کا موقع دیے، بغیر کوئی وارننگ دیے فی الفور اسے قتل کر دیا۔
مگر ذرا سوچئے کہ جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے، وہ رسول (ص) کا دنیاوی معاملات میں ایک فیصلہ تو کیا بلکہ پوری کی پوری شریعت کو پامال کر کے اسکا انکار کر رہا ہوتا ہے، اللہ اور اسکے رسول کا مکمل انکار کر رہا ہوتا ہے، مگر اسکے باوجود اسے فی الفور قتل نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ اُسے تین دن کی مہلت دینا کا حکم ہے تاکہ اُسے موقع مل سکے کہ وہ توبہ کر سکے۔
عقل رکھنے اور اسے استعمال کرنے والوں کے لیے اس بات میں مکمل سبق موجود ہے کہ وہ حق و باطل میں تمیز کر سکیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہمیں اللہ کے نام پر انصاف کرنا ہے۔
سلمان تاثیر کا قتل اسی ضعیف و منکر روایت کی وجہ سے ہوا ہے[ترمیم]
جتنے بھی حضرات (علماء) نے ممتاز قادری کی حمایت کی ہے، انہوں نے اسی حضرت عمر والی ضعیف اور منکر روایت کو استعمال کیا ہے۔ انکا اصرار ہے کہ چونکہ سلمان تاثیر توہینِ رسالت قانون سے راضی نہیں تھےاس لیے انکا قتل ایسے ہی ضروری تھا جیسا کہ اس روایت میں حضرت عمر نے اُ س شخص کو قتل کر دیا تھا جو اللہ کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہیں ہورہا تھا۔
اور یہ تو صرف ابتدا ہے۔ اس روایت میں یہ پوٹینشل پورا موجود ہے کہ صرف توہین رسالت قانون ہی نہیں بلکہ جلد ہی اسکا نفاذ دیگر قوانین سے اختلاف کرنے والوں پر بھی ہو رہا ہو گا اور انہیں فقط اس بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہوگا کہ انکے دل ان قوانین پر راضی نہیں ہو رہے تھے لہذا انکو کلمہ گو مسلمان ہوتے ہوئے بھی قتل کر ڈالو۔