عبید انصاری
محفلین
مندرجہ بالا عنوان پنجاب کے ایک باخدا عالم مولانا غلام رسول صاحبؒ کے کلام کا ایک مصرع ہے۔ اس کلام میں مولانا نے فکرِ آخرت سے متعلق بڑے درد بھرے اشعار کہے ہیں۔ یہ اشعار ہم بچپن میں استاذِ محترم کو گنگناتے سنتے تھے تو قلب پر عجیب اثر ہوتا تھا۔آپ قلعہ میہان سنگھ ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے ، بڑے عالم، محدث اور صاحبِ تاثیر بزرگ تھے۔آپ کے بارے میں حضرت شاہ عبد القادر رائے پوریؒ فرماتے ہیں:
"بڑے عاشق تھے۔ "دلا غافل نہ ہو یک دم " انہی کے اشعار ہیں۔ 'پنجابی تھے، ان کی اردو بھی ایسی ہی ہے۔' رسول اکرمﷺ کے عشق میں ان کے بڑے دردناک اشعار ہیں۔ صحبت میں یہ اثر تھا کہ جو ایک مرتبہ پاس بیٹھ جاتا ساری عمر اس کی تہجد بھی ناغہ نہ ہوتی۔ "
ان کا یہ کلام یہاں اہل محفل کی نذر کیا جاتا ہے ۔ دیکھیے کہ سادہ سے الفاظ میں کیسا فکرِ آخرت نمایاں ہے:
(اللہ تعالیٰ ہمیں سامانِ آخرت کی فکر نصیب فرمائیں۔آمین)
(ماخوذ از جواہر پارے مصنفہ مولانا نعیم الدین)
"بڑے عاشق تھے۔ "دلا غافل نہ ہو یک دم " انہی کے اشعار ہیں۔ 'پنجابی تھے، ان کی اردو بھی ایسی ہی ہے۔' رسول اکرمﷺ کے عشق میں ان کے بڑے دردناک اشعار ہیں۔ صحبت میں یہ اثر تھا کہ جو ایک مرتبہ پاس بیٹھ جاتا ساری عمر اس کی تہجد بھی ناغہ نہ ہوتی۔ "
ان کا یہ کلام یہاں اہل محفل کی نذر کیا جاتا ہے ۔ دیکھیے کہ سادہ سے الفاظ میں کیسا فکرِ آخرت نمایاں ہے:
دِلا غافل نہ ہو، یک دم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے
بغیچے چھوڑکر خالی زمیں اندر سمانا ہے
ترا نازک بدن بھائی جو لیٹے سیج پھولوں پر
یہ ہوگا ایک دن مردار جو کِرموں نے کھانا ہے
اجل کے روز کو کر یاد، کر سامان چلنے کا
مسافر بے وطن ہے تو، کہاں تیرا ٹھکانہ ہے
غلط فہمید ہے تیری، نہیں آرام اِک پل بھی
زمیں کے فرش پر سونا جو اینٹوں کا سرہانا ہے
عزیزا یاد کر وہ دن جو ملک الموت آوے گا
نہ جاوے ساتھ تیرے کُو، اکیلا تونے جانا ہے
نہ بیلی ہوسکے بھائی ، نہ بیٹا باپ ، نے مائی
تو کیوں پھرتا ہے سودائی، عمل نے کام آنا ہے
جہاں کے شغل میں شاغل، خدا کی یاد سےغافل
کرے دعویٰ جو یہ دنیا مرا دائم ٹھکانہ ہے
فرشتہ روز کرتا ہے منادی چار کونوں میں
محلاں اچیاں والے ترا گوریں ٹھکانہ ہے
کہاں وہ ماہِ کنعانی، کہاں تختِ سلیمانی!
گئے سب چھوڑ کر فانی اگر ناداں و دانا ہے
نظر کر دیکھ خویشوں میں جو ساتھی کون ہے تیرا
انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اکیلے کو دبانا ہے
نظر کر ماڑیاں خالی، کہاں وہ ماڑیاں والے
سبھی کوڑا پسارا ہے، دغا بازی کا بانا ہے
غلام اک دن نہ کر غفلت حیاتی پر نہ ہو غرّہ
خدا کو یاد کر ہر دم جو آخر کام آنا ہے
بغیچے چھوڑکر خالی زمیں اندر سمانا ہے
ترا نازک بدن بھائی جو لیٹے سیج پھولوں پر
یہ ہوگا ایک دن مردار جو کِرموں نے کھانا ہے
اجل کے روز کو کر یاد، کر سامان چلنے کا
مسافر بے وطن ہے تو، کہاں تیرا ٹھکانہ ہے
غلط فہمید ہے تیری، نہیں آرام اِک پل بھی
زمیں کے فرش پر سونا جو اینٹوں کا سرہانا ہے
عزیزا یاد کر وہ دن جو ملک الموت آوے گا
نہ جاوے ساتھ تیرے کُو، اکیلا تونے جانا ہے
نہ بیلی ہوسکے بھائی ، نہ بیٹا باپ ، نے مائی
تو کیوں پھرتا ہے سودائی، عمل نے کام آنا ہے
جہاں کے شغل میں شاغل، خدا کی یاد سےغافل
کرے دعویٰ جو یہ دنیا مرا دائم ٹھکانہ ہے
فرشتہ روز کرتا ہے منادی چار کونوں میں
محلاں اچیاں والے ترا گوریں ٹھکانہ ہے
کہاں وہ ماہِ کنعانی، کہاں تختِ سلیمانی!
گئے سب چھوڑ کر فانی اگر ناداں و دانا ہے
نظر کر دیکھ خویشوں میں جو ساتھی کون ہے تیرا
انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اکیلے کو دبانا ہے
نظر کر ماڑیاں خالی، کہاں وہ ماڑیاں والے
سبھی کوڑا پسارا ہے، دغا بازی کا بانا ہے
غلام اک دن نہ کر غفلت حیاتی پر نہ ہو غرّہ
خدا کو یاد کر ہر دم جو آخر کام آنا ہے
(اللہ تعالیٰ ہمیں سامانِ آخرت کی فکر نصیب فرمائیں۔آمین)
(ماخوذ از جواہر پارے مصنفہ مولانا نعیم الدین)