دلِ امید توڑا ہے کسی نے ۔

دلِ امید توڑا ہے کسی نے
سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے

نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے
کہاں پہ لا کے چھوڑا ہے کسی نے

قفس کی تیلیاں رنگین کیوں ہیں
یہاں پہ سر کو پھوڑا ہے کسی نے

میں اِن شیشہ گروں سے پوچھتا ہوں
کہ ٹوٹا دِل بھی جوڑا ہے کسی نے

محبت میں مجھے برباد کر کے
لہو کا دل نچوڑا ہے کسی نے

دلِ امید توڑا ہے کسی نے
سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے
نامعلوم
 

فلسفی

محفلین
نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے
کہاں پہ لا کے چھوڑا ہے کسی نے

قفس کی تیلیاں رنگین کیوں ہیں
یہاں پہ سر کو پھوڑا ہے کسی نے
"کہاں پر"، "یہاں پر" کا محل ہے شاید۔

قفس کی تیلیاں پہلی بار سنا ہے۔ سلاخیں آنا چاہیے تھا۔ تخیل البتہ خوب ہے۔
 

فاخر

محفلین
ویسے ہماری یہ محفل گوگل سرچ کیلئے انسائیکلو پیڈیا ثابت ہو رہی ہے ۔
میں نے یہ غزل آج کئی سالوں کے بعد گوگل پر سرچ کیا تو براہِ راست اپنے ہی گھر کا پتہ بتا دیا گیا۔
میں یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اس غزل کے اصل خالق کون شاعر ہیں ۔ یوٹیوب پر متضاد سی کیفیت ہے۔

کہیں نصرت فتح علی خان کے نام سے منسوب ہے، تو کہیں کسی اور گلوکار کے نام سے منسوب ہے۔ جب کہ سب جانتے ہیں کہ یہ آواز نصرت فتح علی خان کی بالکل بھی نہیں ہے، ویسے ہم بھی نصرت فتح علی خان کی پرانی سی پرانی آواز کو پلک جھپکتے ہی پہچان لیتے ہیں ، کیوں کہ اب تک سب سے زیادہ جس گلوکار کو سنا ہے ، وہ نصرت فتح علی خان مرحوم ہی ہیں۔
اگر کسی صاحب کے پاس مصدقہ اطلاعات ہوں تو براہِ کرم شیئر کریں۔
 
ویسے ہماری یہ محفل گوگل سرچ کیلئے انسائیکلو پیڈیا ثابت ہو رہی ہے ۔
میں نے یہ غزل آج کئی سالوں کے بعد گوگل پر سرچ کیا تو براہِ راست اپنے ہی گھر کا پتہ بتا دیا گیا۔
میں یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اس غزل کے اصل خالق کون شاعر ہیں ۔ یوٹیوب پر متضاد سی کیفیت ہے۔

کہیں نصرت فتح علی خان کے نام سے منسوب ہے، تو کہیں کسی اور گلوکار کے نام سے منسوب ہے۔ جب کہ سب جانتے ہیں کہ یہ آواز نصرت فتح علی خان کی بالکل بھی نہیں ہے، ویسے ہم بھی نصرت فتح علی خان کی پرانی سی پرانی آواز کو پلک جھپکتے ہی پہچان لیتے ہیں ، کیوں کہ اب تک سب سے زیادہ جس گلوکار کو سنا ہے ، وہ نصرت فتح علی خان مرحوم ہی ہیں۔
اگر کسی صاحب کے پاس مصدقہ اطلاعات ہوں تو براہِ کرم شیئر کریں۔
شاعر:راغب مراد آبادی
 

محمداحمد

لائبریرین
دلِ امید توڑا ہے کسی نے
سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے

نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے
کہاں پہ لا کے چھوڑا ہے کسی نے

قفس کی تیلیاں رنگین کیوں ہیں
یہاں پہ سر کو پھوڑا ہے کسی نے

میں اِن شیشہ گروں سے پوچھتا ہوں
کہ ٹوٹا دِل بھی جوڑا ہے کسی نے

محبت میں مجھے برباد کر کے
لہو کا دل نچوڑا ہے کسی نے

دلِ امید توڑا ہے کسی نے
سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے
نامعلوم

بہت اچھی غزل ہے عدنان بھائی!

شریکِ محفل کرنے کا شکریہ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دو اشعار اور بھی ہیں جو صوفی نامہ سے ملے ہیں۔

چمن میں بخدا شبنم نہیں ہے
یہاں دامن نچوڑا ہے کسی نے

ہے دیوانوں کو زنجیروں سے نسبت
یہ رشتہ خوب جوڑا ہے کسی نے
 

محمداحمد

لائبریرین
قفس کی تیلیاں پہلی بار سنا ہے۔

قفس کی تیلیوں کی اصطلاح نئی نہیں ہے بلکہ شعراء نے اسے پہلے بھی استعمال کیا ہے۔

کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا
کچھ فضا کچھ حسرت پرواز کی باتیں کرو

فراق گورکھپوری

قفس کی تیلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے
کہ ہر بجلی قریب آشیاں معلوم ہوتی ہے

سیماب اکبر آبادی
 
Top