محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
دلِ امید توڑا ہے کسی نے
سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے
نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے
کہاں پہ لا کے چھوڑا ہے کسی نے
قفس کی تیلیاں رنگین کیوں ہیں
یہاں پہ سر کو پھوڑا ہے کسی نے
میں اِن شیشہ گروں سے پوچھتا ہوں
کہ ٹوٹا دِل بھی جوڑا ہے کسی نے
محبت میں مجھے برباد کر کے
لہو کا دل نچوڑا ہے کسی نے
دلِ امید توڑا ہے کسی نے
سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے
نامعلوم
سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے
نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے
کہاں پہ لا کے چھوڑا ہے کسی نے
قفس کی تیلیاں رنگین کیوں ہیں
یہاں پہ سر کو پھوڑا ہے کسی نے
میں اِن شیشہ گروں سے پوچھتا ہوں
کہ ٹوٹا دِل بھی جوڑا ہے کسی نے
محبت میں مجھے برباد کر کے
لہو کا دل نچوڑا ہے کسی نے
دلِ امید توڑا ہے کسی نے
سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے
نامعلوم