یوسف سلطان
محفلین
دلِ بے مدعا ہے میں نہیں ہوں
کوئی دم کی ہوا ہے میں نہیں ہوں
وہ خود بیں خود نما ہے میں نہیں ہوں
مقابل آئینہ ہے میں نہیں ہوں
حقیقت میں خدا ہے میں نہیں ہوں
یہ برحق ہے بجا ہے میں نہیں ہوں
اُٹھے ہیں جب ذرا غفلت کے پردے
تو یہ عقدہ کُھلا ہے میں نہیں ہوں
جہاں ڈالی نظر نکلا تُو ہی تُو
پتہ اس سے چلا ہے میں نہیں ہوں
وہ میرا راز ہے میں راز اُس کا
سمجھ لو بات کیا ہے میں نہیں ہوں
کبھی ساجد کبھی مسجود ہوں میں
پھر اِس پر یہ مزا ہے میں نہیں ہوں
سمائے ہیں نگاہوں میں وہ جلوے
تو کہنا ہی پڑا ہے میں نہیں ہوں
بنا کر خود ہی اِک مٹی کو مورت
وہ خود ہی آ بسا ہے میں نہیں ہوں
وہی نقشہ ، وہی شوخی ، وہی چال
سراپا دل رُبا ہے میں نہیں ہوں
ترا بند قبا چُھونے کے قابل
فقط بادِ صبا ہے میں نہیں ہوں
دلِ مشتاق میرا کیا بھروسہ
ترا حافظ خدا ہے میں نہیں ہوں
کلام حضرت الشیخ غلام معین الدین جیلانی تخلص مشتاق المعروف بڑے لالہ جی گولڑہ شریف
کوئی دم کی ہوا ہے میں نہیں ہوں
وہ خود بیں خود نما ہے میں نہیں ہوں
مقابل آئینہ ہے میں نہیں ہوں
حقیقت میں خدا ہے میں نہیں ہوں
یہ برحق ہے بجا ہے میں نہیں ہوں
اُٹھے ہیں جب ذرا غفلت کے پردے
تو یہ عقدہ کُھلا ہے میں نہیں ہوں
جہاں ڈالی نظر نکلا تُو ہی تُو
پتہ اس سے چلا ہے میں نہیں ہوں
وہ میرا راز ہے میں راز اُس کا
سمجھ لو بات کیا ہے میں نہیں ہوں
کبھی ساجد کبھی مسجود ہوں میں
پھر اِس پر یہ مزا ہے میں نہیں ہوں
سمائے ہیں نگاہوں میں وہ جلوے
تو کہنا ہی پڑا ہے میں نہیں ہوں
بنا کر خود ہی اِک مٹی کو مورت
وہ خود ہی آ بسا ہے میں نہیں ہوں
وہی نقشہ ، وہی شوخی ، وہی چال
سراپا دل رُبا ہے میں نہیں ہوں
ترا بند قبا چُھونے کے قابل
فقط بادِ صبا ہے میں نہیں ہوں
دلِ مشتاق میرا کیا بھروسہ
ترا حافظ خدا ہے میں نہیں ہوں
کلام حضرت الشیخ غلام معین الدین جیلانی تخلص مشتاق المعروف بڑے لالہ جی گولڑہ شریف