La Alma
لائبریرین
دلِ سوزاں!
خبر سیال کی کچھ لے
فراقِ یار سے گھبرا کے یہ قطرے
کبھی کی راہ اپنی بھول بیٹھے ہیں
کہ مدت سے سرِ مژ گاں تماشا ہے
لہو آنکھوں سے بہتا ہے
رگوں میں دوڑتے ہیں اشک صدیوں سے
ترے اس حلقہِ جاں میں
تغیر ہی تغیر ہے
خرابہ ہی خرابہ ہے
دلِ سوزاں!
اب اس ہنگامِ وحشت سے
نکل بھی آ
دلِ سوزاں!
سنبھل بھی جا ...