چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
دلِ مضطر کو سمجھایا بہت ہے
مگر اس دل نے تڑپایا بہت ہے
تبسم بھی، حیا بھی، بے رخی بھی
یہ اندازِ ستم بھایا بہت ہے
قیامت ہے یہ ترکِ آرزو بھی
مجھے اکثر وہ یاد آیا بہت ہے
رہِ ہستی کے اس جلتے سفر میں
تمہاری یاد کا سایہ بہت ہے