عنی ساری کی ساری غزل کٹہرے میں ...
بہرحال آپ دونوں کی توجہ کے لیےبہت مشکور ہوں .
۔۔۔ غزل کٹہرے میں کبھی نہیں تھی،اظہارِ رائے سے اس میں موجود جن عیوب کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ ثابت نہیں ہوتے۔ ہم جو بیان کرتے ہیں اس کا صرف اتنا مطلب ہے کہ ہمیں یہ دکھائی دیا، یہ نہیں کہ "یہی ہے، اس کے علاوہ نہیں ہوسکتا۔"
مطلع میں زیادہ کی "ی" کو نہیں گرایا گیا بلکہ "اور" کو "فا" کے وزن پر لیا ہے
÷÷÷تقطیع کے حساب سے غلط نہیں ہے، اور کو "اُر" کردیجئے تو وہ بھی میری نظر میں روانی کے اعتبار سے درست نہیں، لیکن کِیا جاتا ہے۔ آپ بھی کرسکتی ہیں۔
"سادہ " کا عین متضاد یہاں مقصود بھی نہیں ہے "فریبِ سخن" اسی طرح ہے جیسے سادگی سے تصنع، پرکاری، بناوٹ یا فریب کاری وغیرہ وغیرہ .
ہم آئے ہیں عاجز فریبِ سخن سے
کسی دن کوئی بات سادہ تو کیجے
۔۔۔ شعر کو دیکھ کر یہاں مناسب عین متضاد لایا جانا بہتر تھا۔ آپ کا مقصود نہیں، یہ تو ہم جانتے ہیں، تبھی تو آپ نے فریبِ سخن کا استعمال کیا۔ لیکن اس سے بات واضح نہیں ہوتی۔ خیر یہ ہماری رائے ہے۔ اختلاف آپ کا حق ۔۔۔
"ترکِ تمنا "کہنے میں کیا حرج ہے میرے نزدیک تو یہ ترکیب زیادہ وسعت کی حامل ہے .تمنا تو کوئی بھی ہو سکتی ہے جبکہ ترکِ عشق یا ترکِ محبت کا استعمال شعر کے مفہوم کو محدود کر دے گا
یہ مانا ہے دشوار ترکِ تمنا
مگر بندہ پرور ارادہ تو کیجے
۔۔۔ ترکِ تمنا ۔۔۔ بے شک وسعت کے اعتبار سے زیادہ بہتر ترکیب ہے۔ لیکن غور فرمائیے تو کیا یہ ممکن بھی ہے کہ انسان تمنا چھوڑ دے؟ یہاں چھوڑنے کو نہیں کہا جارہا، صرف ارادہ کرنے کو کہا گیا، لیکن اس کا ارادہ کرنے کی تلقین جو درست ہی نہیں اور جس کے سبب سے کائنات میں حرکت جو زندگی کی بنیاد ہے، وہ تھم جائے یا بالکل معدوم ہوجائے۔۔۔ ایک بار پھر، شعر آپ کا، تو رائے بھی آپ کی درست مانی جائے گی۔۔ جو مناسب لگے۔
ساغر ، جنوں اور قلم کے کمبی نیشن سے تو شاہکار تخلیق ہو سکتے ہیں مگر افسوس ہمارے شاعر حضرات استفادہ کرنے کو تیار ہی نہیں
۔۔یاد رکھئے گا شاہکار خود بولتا ہے کہ وہ شاہکار ہے۔اس کا استفادہ کرنے کو لوگ چاہے تیار نہ ہوں، لیکن مانتے ضرور ہیں کہ اچھی بات کہی گئی ہے۔ جیسے کافر پیغامِ حق کا جواب دیتے تھے : ہم کیا کریں کہ اپنے آبا کا طریقہ نہیں چھوڑ سکتے لیکن جو آپ کہہ رہے ہیں، وہ بھی سچ ہے۔ آپ کو اس شعر میں شاہکار والی بات دکھائی دیتی ہے تو اسے چھوڑنا تو دور، ایک لفظ بھی تبدیل مت کیجئے گا۔
ویسے تو پیادہ، قاصد کے متبادل کے طور پر لیا گیاہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے .
۔۔۔ غلط ہے یا ہوسکتا ہے؟؟اس سوال کا جواب آپ پر چھوڑ تے ہیں۔۔۔ جو ٹھیک لگے۔
اگر لکھنے والے کو خلوص و وفا کی ضرورت ہی نہیں تو زبردستی تو نہیں کی جا سکتی نا
ضرورت نہیں اب خلوص و وفا کی
وہی جعلسازی لبادہ تو کیجے
۔۔۔بے شک۔۔ زبردستی تو کسی بات کی نہیں۔ لیکن غور فرمائیے آپ کے اس شعر میں کائناتی سچائی کا سا عنصر پایا جاتا ہے، یعنی ایک تلقین کی جارہی ہے ہر خاص و عام کو، جو توجہ دے۔ یہاں محض لکھنے والا مراد نہیں ہے۔ ۔
کن فکاں والے شعر میں پہلے مصرع پر بھی ذرا غور فرمائیے ، خدا سےصرف اپنی ہستی کی ترتیب ِنو کی خواہش کی گئی ہے . کن فیکون کی کائناتی گتھیاں نہیں سلجھائی گئیں
.
خدایا حدِ جاں دھواں ہی دھواں ہے
کبھی کن فکاں کا اعادہ تو کیجے
۔۔۔آپ نےسچ کہا۔ پہلے مصرعے پر شاید میں نے غور نہیں کیا، کرتا تو ایک اور اختلاف ہوتا۔ انسان بہترین صورت میں پیدا کیا گیا ہے۔ حد جاں دھواں ہی دھواں تو کسی قدر جنات کی سی بات لگتی ہے۔ انسانوں میں کیسے ہوسکتا ہے؟ ۔۔۔ خیر ہم اس کو سائنسی اور دینی دونوں ہی سطح پر دیکھ رہے ہیں، آپ کا مدعا کچھ اور ہے۔۔۔ہستی کی ترتیب نو اول تو بیان نہیں کی گئی، دوم، میں کہوں گا کہ یہ غلط ہے۔خدا کی ہر تخلیق ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ انسان ان تخلیقات ، بلکہ مخلوقات میں سب سے افضل ہے۔ وہ نامکمل کیسے ہوا؟