جارجیا کی وہ زیارت گاہ جس تک پہنچنے کے لیے ’موت‘ کے منھ سے گزرنا پڑتا ہے
15 ستمبر 2022
،تصویر کا ذریعہFENG WEI PHOTOGRAPHY/GETTY IMAGES
جب میں وسط مغربی جارجیا کے امیریتی خطے سے گزر رہی تھی تو بل کھاتے پہاڑوں اور چیڑ کے سرسبز جنگلات سڑک کے دونوں طرف موجود تھے اور وسیع و عریض چراگاہوں میں گائیں جگالی کر رہی تھیں۔
یہ انتہائی خوبصورت دیہی منظر تھا لیکن اچانک ہی گاڑی نے ایک موڑ کاٹا اور منظر بدل سا گیا۔
اب میرے سامنے آسمان کو چھوتی چونے کے پتھر کی ایک چٹان تھی جو تقریباً 40 میٹر اونچا تھا اور اس کی چوٹی پر ایک چھوٹا سا گرجا گھر بنا ہوا تھا۔
میں بالآخر کٹسخی پلر تک پہنچ گئی تھی۔ میں جارجیا کے دارالحکومت تبلیسی سے 220 کلومیٹر کا سفر طے کر کے یہ بلند و بالا پتھر دیکھنے آئی تھی۔ مجھے ایک طویل عرصے سے مشہور یونانی خانقاہیں دیکھ کر حیرت ہوتی تھی جو قدرتی ستونوں جیسی چٹانوں پر بنائی جاتی ہیں۔
اور جب میں نے ایسے ہی ایک غیر معمولی گرجا گھر کے بارے میں سنا جہاں باہمت راہب آسمان سے قریب ہونے کے لیے چڑھتے ہیں تو میں نے اسی وقت یہاں جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
راہب، کٹسخی پلر کے اوپر کئی صدیوں سے رہتے رہے ہیں۔ اب یہ کئی قدامت پسند مسیحیوں کے لیے زیارت کی جگہ ہے جبکہ سیاح یہاں پر پہاڑی کناروں سے لٹکتے راہبوں کا دل دہلا دینے والا منظر دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
یہاں موجود ایک گرجا گھر کو راہب ’میکسیمس دی کنفیسر‘ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ دنیا کے سب سے اونچے اور دور دراز علاقوں میں واقعہ گرجا گھروں میں سے ایک ہے۔
خیال ہے کہ اسے چھٹی اور آٹھویں صدی کے درمیان عمودی ڈھانچے بنانے والے ’پلر مونکس‘ نے بنایا۔ ان کا ایمان تھا کہ اونچے ستون یا چٹانوں پر عبادت سے وہ دنیاوی لذتوں سے دور رہ سکتے ہیں۔
قدیم دور میں عبادت کا یہ انداز مقبول تھا۔ سب سے مشہور پلر مونکس میں سے ایک سینٹ سمعان عمودی تھے جنھوں نے شام کے شہر حلب میں 423 قبل مسیح کے دوران 37 برس ایک ستون کے اوپر گزارے۔ ایسی عبادات اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔
کٹسخی پلر ان چند بچے ہوئے مقامات میں سے ایک ہے جو قدیم دور کی یاد تازہ کرتے ہیں، گو کہ اس کی کافی حد تک تجدید کی گئی ہے۔
کٹسخی پلر کے نیچے ایک خانقاہ میں رہنے والے فادر الاریئن کہتے ہیں کہ ’کچھ راہب دنیاوی لذتیں چھوڑنے میں پہل کرتے ہیں اور ستون پر چڑھ کر زندگی گزارتے اور عبادت کرتے ہیں۔‘
’ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اتنا اوپر ہم خدا کے قریب ہوں گے۔‘
مقامی طور پر یہ کہانی مشہور ہے کہ کٹسخی پلر ہمیشہ سے ایک مقدس مقام رہا ہے اور قدیم مذاہب میں اسے زرخیزی کی رسومات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جارجیا میں چوتھی صدی میں عسائیت کو بطور مذہب متعارف کرایا گیا۔ اس طرح قدامت پسند مسیحی لوگوں کے لیے یہ عبادت کی بہترین جگہ بن گئی تھی۔
فادر الاریئن کہتے ہیں کہ ’یہ ستون اصل صلیب کی نشانی ہے۔ اوپر گرجا گھر قائم ہونے سے قبل ستون کے نیچے خداؤں کے بت ملے تھے۔‘
مورخ کہتے ہیں کہ اس ستون پر 10ویں صدی کے دوران راہب رہنے لگے تاہم انھیں اب بھی معلوم نہیں کہ وہ ستون کے اوپر خود کیسے پہنچے اور چرچ کی تعمیر کے لیے سامان کیسے لے کر گئے۔
مگر 15ویں صدی میں سلطنت عثمانیہ نے جارجیا میں مداخلت کی اور صدیوں تک عبادت کا یہ طریقہ ترک کر دیا گیا۔ تبلیسی کی سکالر ناتیا خزانيشولی کہتی ہیں کہ ’ہمیں معلوم نہیں کہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں راہبوں نے ستونوں پر چڑھنا کیوں چھوڑ دیا۔‘
،تصویر
PHOTOGRAPHY/GETTY IMAGES
نیشنل سینٹر آف مینوسکپمس کی سکالر نے مزید کہا کہ ’مغربی جارجیا میں سلطنت عثمانیہ کی مداخلت کے باوجود یہ خطرہ نہیں تھا کہ عیسائیت کا مذہب ختم ہو جائے گا۔‘
تاہم 1944 تک اس چرچ کی پراسراریت برقرار رہی اور پھر پہلی بار مذہبی وابستگی نہ رکھنے والا ایک گروہ اس ستون پر چڑھ گیا۔
سنہ 1944 میں جارجیا کے کچھ افراد کٹسخی پلر پر چڑھے اور انھیں ایک قدیم چرچ کے باقیات ملے۔ اس سفر میں انھیں راہبوں کے تین کمرے اور ایک شراب خانہ بھی ملا اور انھیں معلوم ہوا کہ وہ کیسے ستون پر چڑھ کر عبادت کرتے تھے۔ ان افراد میں سے ایک، جو ماہرین تعمیرات تھے، نے کئی گھنٹوں تک اس جگہ کا جائزہ لیا اور عبادت کے اس مقام کو مخصوص عمودی ڈھانچوں سے جوڑا۔
اس دریافت سے کئی دہائیوں بعد 90 کی دہائی میں میکسم نامی ایک شخص نے دوبارہ اس طرز عبادت کو اپنایا اور مقامی افراد کے ساتھ ساتھ جارجیا میں نیشنل ایجنسی فار کلچرل ہیریٹیج کی مدد سے چرچ کو اپنی قدیم اور مقدس حالت میں بحال کیا۔
انھوں نے رسیوں اور چرخیوں کی مدد سے تعمیراتی مواد اوپر بھجوایا۔ اس کام کے لیے ایک 40 میٹر لوہے کی لمبی سیڑھی بھی لائی گئی تاکہ ستون پر چڑھنا آسان ہو سکے۔
فادر میکسم نے پھر سیڑھی چڑھی، دنیاوی زندگی کو ترک کیا اور 20 برس کے لیے اس فلک بوس گرجا گھر کے ہو گئے۔ وہ کبھی کبھار محض ملاقاتوں کے لیے نیچے خانقاہ آیا کرتے تھے۔
انھوں نے اپنا اکثر وقت تنہائی میں پڑھتے اور عبادت کر کے گزارا۔ انھیں اوپر کھانا بھجوایا جاتا رہا تاہم جب سیاح وہاں آنے لگے تو اس مقام کا امن اور سکون جانے لگا۔ وہ سنہ 2015 میں یہاں سے ہمیشہ کے لیے اتر گئے۔ فی الحال وہ کٹسخی خانقاہ کے رہنما ہیں۔
فادر الاریئن کا کہنا ہے کہ ’یہ ستون سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے اور اس مقام پر اب بہت شور ہوتا ہے۔ تو اب ہم راہبوں کو اوپر امن اور تنہائی نہیں مل پاتی کیونکہ ہم اب بھی نیچے شور سن سکتے ہیں۔‘
’فادر میکسم سمیت ہم میں سے بہت سے لوگ اب محض کچھ گھنٹوں کے لیے اوپر جاتے ہیں اور پھر واپس آ جاتے ہیں۔‘
چونکہ اس طرز عبادت میں ایک وقت میں گرجا گھر میں صرف ایک راہب ہو سکتا ہے اس لیے خانقاہ سے جانے والے رابب ہفتے میں ایک یا دو بار سیڑھی چڑھنے کی باریاں لیتے ہیں۔
جب میں وہاں گئی تو کوئی راہب اوپر نہیں جا رہا تھا۔ فادر الاریئن نے مجھے بتایا کہ سیاہ اور لمبے لباس میں نڈر راہب 20 منٹ میں سیڑھی استعمال کر کے اوپر چڑھ جاتے ہیں اور بعض تو رسیوں کے ذریعے اوپر جاتے ہیں۔
یہ کئی قدامت پسند مسیحیوں کے لیے زیارت کی جگہ ہے جبکہ سیاح یہاں پر پہاڑی کناروں سے لٹکتے راہبوں کا دل دہلا دینے والا منظر دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
www.bbc.com