ساتواں انسان
محفلین
" کھٹ ۔ ۔ ۔ ! " تھوڑی دور چلنے کے بعد پروفیسر نے وہ سلاخ سلیم کے سر پر دے ماری ۔ سلیم بغیر آواز نکالے چکرا کر دھم سے زمین پر آرہا ۔ پروفیسر حیرت انگیز پھرتی کے ساتھ جھکا اور بےہوش سلیم کو اٹھا کر اپنے کاندھے پر ڈال لیا ۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی پلکے پھلکے بچے کو اٹھا لیتا ہے ۔ وہ تیزی سے پرانی کوٹھی کی طرف جارہا تھا ۔ یہ سب اتنی جلدی اور خاموشی سے ہوا کہ وہ نوکر جو ہال میں سلیم کا انتظار کررہا تھا وہ یہی سوچتا رہ گیا کہ اب سلیم پروفیسر کو اس کی کوٹھی میں دھکیل کر واپس آرہا ہوگا ۔
پرانی کوٹھی میں پہنچ کر پروفیسر نے بےہوش سلیم کو ایک کرسی پر ڈال دیا اور جھک کر سر کے اس حصے کو دیکھنے لگا جو چوٹ لگنے کی وجہ سے پھول گیا تھا ۔ اس نے پراطمینان انداز میں اس طرح سر ہلایا جیسے اسے یقین ہو کہ وہ ابھی کافی دیر تک بےہوش رہے گا ۔ پھر اس حیرت انگیز بوڑھے نے سلیم کو پیٹھ پر لاد کر مینار پر چڑھنا شروع کیا ۔ بالائی کمرے میں اندھیرا تھا ، اس نے ٹٹول کر سلیم کو ایک بڑے صوفے پر ڈالا اور موم بتی جلا کر طاق پر رکھ دی ۔
ہلکی روشنی میں چسٹر کے کالر کے سائے کی وجہ سے اس کا چہرہ اور زیادہ خوفناک معلوم ہونے لگا تھا ۔ اس نے سلیم کو صوفے سے باندھ دیا پھر وہ دوربین کے قریب والی کرسی پر بیٹھ گیا اور دوربین کے ذریعے نواب صاحب کے کمرے کا جائزہ لینے لگا ۔ نواب صاحب کے کمرے کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں ۔ ڈاکٹر اور نرسوں نے اپنے چہروں پر سفید نقاب لگائے تھے ۔
ڈاکٹر شوکت کھولتے ہوئے پانی سے ربڑ کے دستانے نکال کر پہن رہا تھا ۔ وہ سب آپریشن کی میز کے گرد کھڑے ہوئے تھے ۔ آپریشن شروع ہونے والا تھا ۔
" بہت خوب ۔ ۔ ۔ ! " پروفیسر بڑبڑایا ۔ " میں ٹھیک وقت پر پہنچ گیا لیکن آخر اس سردی کے باوجود بھی انہوں نے کھڑکیاں کیوں نہیں بند کیں ۔ "
نواب صاحب کی کوٹھی کے گرد و پیش عجیب طرح کی پراسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بیمار کے کمرے میں کیا ہورہا ہے ۔ بیگم صاحبہ کا سخت حکم تھا کہ کسی قسم کا شور نہ ہونے پائے ۔ لوگ اتنی خاموشی سے چل پھر رہے تھے جیسے وہ خواب میں چل رہے ہوں ۔
پرانی کوٹھی میں پہنچ کر پروفیسر نے بےہوش سلیم کو ایک کرسی پر ڈال دیا اور جھک کر سر کے اس حصے کو دیکھنے لگا جو چوٹ لگنے کی وجہ سے پھول گیا تھا ۔ اس نے پراطمینان انداز میں اس طرح سر ہلایا جیسے اسے یقین ہو کہ وہ ابھی کافی دیر تک بےہوش رہے گا ۔ پھر اس حیرت انگیز بوڑھے نے سلیم کو پیٹھ پر لاد کر مینار پر چڑھنا شروع کیا ۔ بالائی کمرے میں اندھیرا تھا ، اس نے ٹٹول کر سلیم کو ایک بڑے صوفے پر ڈالا اور موم بتی جلا کر طاق پر رکھ دی ۔
ہلکی روشنی میں چسٹر کے کالر کے سائے کی وجہ سے اس کا چہرہ اور زیادہ خوفناک معلوم ہونے لگا تھا ۔ اس نے سلیم کو صوفے سے باندھ دیا پھر وہ دوربین کے قریب والی کرسی پر بیٹھ گیا اور دوربین کے ذریعے نواب صاحب کے کمرے کا جائزہ لینے لگا ۔ نواب صاحب کے کمرے کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں ۔ ڈاکٹر اور نرسوں نے اپنے چہروں پر سفید نقاب لگائے تھے ۔
ڈاکٹر شوکت کھولتے ہوئے پانی سے ربڑ کے دستانے نکال کر پہن رہا تھا ۔ وہ سب آپریشن کی میز کے گرد کھڑے ہوئے تھے ۔ آپریشن شروع ہونے والا تھا ۔
" بہت خوب ۔ ۔ ۔ ! " پروفیسر بڑبڑایا ۔ " میں ٹھیک وقت پر پہنچ گیا لیکن آخر اس سردی کے باوجود بھی انہوں نے کھڑکیاں کیوں نہیں بند کیں ۔ "
نواب صاحب کی کوٹھی کے گرد و پیش عجیب طرح کی پراسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بیمار کے کمرے میں کیا ہورہا ہے ۔ بیگم صاحبہ کا سخت حکم تھا کہ کسی قسم کا شور نہ ہونے پائے ۔ لوگ اتنی خاموشی سے چل پھر رہے تھے جیسے وہ خواب میں چل رہے ہوں ۔