نور وجدان
لائبریرین
دل ، زخم گنتے گنتے وحشی سا ہو گیا ہے
اس زندگی نے مجھ کو اتنا تھکا دیا ہے
میں جس کی جستجو میں پھرتی نگر نگر ہوں
آئینہ بن کے میرا مجھ میں مکیں رہا ہے
بسمل کی مثل بے جاں میں رقص سے ہوئی جب
دیکھا تماشہ سب نے کب آسرا دیا ہے
جاتے ہوئے بھی مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو کوئی نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے
خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
مشکل سفر کو میں نے اطمیناں سے سہا ہے
تھا قرض جاں پہ اس کی ، وہ واجِبُ الاَدا ہے
میں کیا گلہ کروں اب، وہ دور جا بسا ہے
آوارگی سے اب ہیں سارے ہی ربط دل کے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن لگا بھلا ہے
تم روبرو ہوئے جب، ہیں حرف سانس لیتے
یادوں کا باب اک اور ہونے رقم لگا ہے
اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعر جس کی خاطر برسوں سے جو کہا ہے
اس زندگی نے مجھ کو اتنا تھکا دیا ہے
میں جس کی جستجو میں پھرتی نگر نگر ہوں
آئینہ بن کے میرا مجھ میں مکیں رہا ہے
بسمل کی مثل بے جاں میں رقص سے ہوئی جب
دیکھا تماشہ سب نے کب آسرا دیا ہے
جاتے ہوئے بھی مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو کوئی نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے
خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
مشکل سفر کو میں نے اطمیناں سے سہا ہے
تھا قرض جاں پہ اس کی ، وہ واجِبُ الاَدا ہے
میں کیا گلہ کروں اب، وہ دور جا بسا ہے
آوارگی سے اب ہیں سارے ہی ربط دل کے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن لگا بھلا ہے
تم روبرو ہوئے جب، ہیں حرف سانس لیتے
یادوں کا باب اک اور ہونے رقم لگا ہے
اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعر جس کی خاطر برسوں سے جو کہا ہے
آخری تدوین: