دل ، زخم گنتے گنتے وحشی سا ہو گیا ہے

نور وجدان

لائبریرین
دل ، زخم گنتے گنتے وحشی سا ہو گیا ہے
اس زندگی نے مجھ کو اتنا تھکا دیا ہے

میں جس کی جستجو میں پھرتی نگر نگر ہوں
آئینہ بن کے میرا مجھ میں مکیں رہا ہے

بسمل کی مثل بے جاں میں رقص سے ہوئی جب
دیکھا تماشہ سب نے کب آسرا دیا ہے

جاتے ہوئے بھی مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو کوئی نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے

خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
مشکل سفر کو میں نے اطمیناں سے سہا ہے

تھا قرض جاں پہ اس کی ، وہ واجِبُ الاَدا ہے
میں کیا گلہ کروں اب، وہ دور جا بسا ہے

آوارگی سے اب ہیں سارے ہی ربط دل کے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن لگا بھلا ہے

تم روبرو ہوئے جب، ہیں حرف سانس لیتے
یادوں کا باب اک اور ہونے رقم لگا ہے

اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعر جس کی خاطر برسوں سے جو کہا ہے​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ نئی غزل تو نہیں، اسی دھاگے میں جاری رکھنے میں کیا حرج تھا۔ کم از کم یہ فائدہ ہوتا کہ یہ معلوم ہو جاتا کہ فلاں فلاں اشعار اصلاح شدہ ہیں۔
جو نئے اشعار ہیں، ان کو دیکھا جائے۔۔۔!!!
مطلع میں ایطا کا سقم ہے، لیکن اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔
نیا مصرع بحر سے خارج ہے
مشکل سفر کو میں نے اطمیناں سے سہا ہے
اسے اطمیناں کی جگہ ’آرام‘ کر دیں۔
یہ بھی بحر سے خارج ہے:
یادوں کا باب اک اور ہونے رقم لگا ہے
اس کے علاوہ روانی کی سخت کمی ہے۔ الفاظ بدل کر دیکھیں ہر نئے مصرعے کو۔ بلکہ پرانا شعر بھی روانی چاہتا ہے جیسے
تم روبرو ہوئے جب، ہیں حرف سانس لیتے
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ نئی غزل تو نہیں، اسی دھاگے میں جاری رکھنے میں کیا حرج تھا۔ کم از کم یہ فائدہ ہوتا کہ یہ معلوم ہو جاتا کہ فلاں فلاں اشعار اصلاح شدہ ہیں۔
جو نئے اشعار ہیں، ان کو دیکھا جائے۔۔۔!!!
مطلع میں ایطا کا سقم ہے، لیکن اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔
نیا مصرع بحر سے خارج ہے
مشکل سفر کو میں نے اطمیناں سے سہا ہے
اسے اطمیناں کی جگہ ’آرام‘ کر دیں۔
یہ بھی بحر سے خارج ہے:
یادوں کا باب اک اور ہونے رقم لگا ہے
اس کے علاوہ روانی کی سخت کمی ہے۔ الفاظ بدل کر دیکھیں ہر نئے مصرعے کو۔ بلکہ پرانا شعر بھی روانی چاہتا ہے جیسے
تم روبرو ہوئے جب، ہیں حرف سانس لیتے

کوئی خا ص وجہ نہیں تھی ۔ کافی تبدیلیاں کی تھیں ۔آدھی سے زیادہ غزل بدل گئی تھئ ۔ اس لیے نیا شروع کیا ۔اگر آپ کہیں تو وہیں پوسٹ کر دوں ۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
دل ، زخم گنتے گنتے وحشی سا ہو گیا ہے!
اس زندگی نے مجھ کو اتنا تھکا دیا ہے!

میں جس کی جستجو میں پھرتی نگر نگر ہوں
آئینہ، بن کے میرا مجھ میں مکیں رہا ہے


بسمل کے رقص پر کی سنگِ زنی جہاں نے
امید اس جہاں سے کی ِ؟ کیا آسرادیا ہے !!!


جاتے ہوئے بھی، مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو کوئی نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے


خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
مشکل سفر کو میں نے آرام سے سہا ہے


تھا قرض جاں پہ اس کی ، وہ واجِبُ الاَدا ہے
اب کیا گلہ ہو اس پر جو دور جا بسا ہے

رشتے تمام دل کے آوارگی سےنکلے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن لگا بھلا ہے


جب بھی تمہاری یادیں لکھ لکھ کے گنگنائیں
تخیل میں تمہارا چہرہ مجھے دِکھا ہے


اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعر جس کی خاطر مدت تلک کہا ہے
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷


 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
قرضِ جاں والا بھی مطلع ہے، اس کو مطلع ثانی کیوں نہیں رکھا۔ اگرچہ اس کا مفہوم سمجھنے سے قاصر ہوں۔
سنگِ زنی؟ یہ لفظ میرے لئے نیا ہے، اور یہاں بے محل بھی۔
دکھا ہے، بمعنی نظر آیا محض بول چال میں چل سکتا ہے۔ ادبی زبان نہیں۔
جاتے ہوئے بھی، مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو کوئی نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے
دوسرے مصرع میں ’ت‘ سے باات صاف ہو سکتی ہہے۔ جیسے
آنسو تو کچھ نہ ٹپکا
 

نور وجدان

لائبریرین
قرضِ جاں والا بھی مطلع ہے، اس کو مطلع ثانی کیوں نہیں رکھا۔ اگرچہ اس کا مفہوم سمجھنے سے قاصر ہوں۔
سنگِ زنی؟ یہ لفظ میرے لئے نیا ہے، اور یہاں بے محل بھی۔
دکھا ہے، بمعنی نظر آیا محض بول چال میں چل سکتا ہے۔ ادبی زبان نہیں۔
جاتے ہوئے بھی، مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو کوئی نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے
دوسرے مصرع میں ’ت‘ سے باات صاف ہو سکتی ہہے۔ جیسے
آنسو تو کچھ نہ ٹپکا

یہ پوسٹ صرف شکریہ کے لیے ہے آپ کی عظمت کو سلام ہو ۔ بہت خوب سکھاتے ہیں بتاتے ہیں ۔ ۔۔ کوشش کرکے غزل میں کافی تبدیلیاں کی ۔ بے محل ہے لفظ اکثر سنا ہے ۔ مگر کوئی شعر یاد نہیں


تکنے ضرور ٹھہرے بسمل کے رقص پر سب
گرتوں کو اس جہاں نے کب آسرا دیا ہے

پہلے یہ لکھا تھا۔ابھی صبح بدلا اس کو میں نے ۔۔ مجھے پھر یہ کر لینا چاہیے

اللہ تعالی آپ کو لمبی عمر دے اور آخرت میں جزا ۔۔۔جزاک اللہ

آنسو تو کچھ نہ ٹپکا

آپ کے کہے کے مطابق تبدیلیاں کروں گی ۔۔

قرضِ جاں والا بھی مطلع ہے، اس کو مطلع ثانی کیوں نہیں رکھا۔ اگرچہ اس کا مفہوم سمجھنے سے قاصر ہوں۔

کچھ شکایات اظہار کی خواہش مانگتے ہیں ۔ جو بدلہ اس سے لینا تھا یا میں نے خاموشی اختیار کی ۔ اس کا مطلب یہ نہیں وہ خواہش رک سی گئی ہے ۔ یہ شکایتیں کی جاسکتی تھی ۔کدورت دور کی جاسکتی مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
دل ، زخم گنتے گنتے وحشی سا ہو گیا ہے!
اس زندگی نے مجھ کو اتنا تھکا دیا ہے!

تھا قرض جاں پہ اس کی وہ واجِبُ الاَدا ہے!
اب کیا گلہ ہو اس پر جو دور جا بسا ہے!

میں جس کی جستجو میں پھرتی نگر نگر ہوں
آئینہ بن کے میرا مجھ میں مکیں رہا ہے!

خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
مشکل سفر کو میں نے آرام سے سہا ہے!

رشتے تمام دل کے آوارگی سےنکلے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن لگا بھلا ہے

جاتے ہوئے بھی، مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو تو کچھ نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے

بسمل کے رقص کو سب تکنے ضرور ٹھہرے
گِرتوں کو ،اس جہاں نے کب آسرا دیا ہے

جب میں نے گنگنائیں لکھ لکھ کے اس کی یادیں
احساس میں اُبھرنے چہرہ وہی لگا ہے
؛
اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعر جس کی خاطر مدت تلک کہا ہے​
 
آخری تدوین:
Top