دل ، زخم گنتے گنتے وحشی سا ہو گیا ہے

نور وجدان

لائبریرین
جب میں نے (مفعول) گن گ نا ئی (فاعلاتن) لک لک کے (مفعول) اس ک یا، دی (فاعلاتن(
تخ خی ل (مفعول) میں ا بر نے (فاعلاتن) چہ رہ و ( مفعول) ہی ل گا ہے ( فاعلاتن
 

شوکت پرویز

محفلین
تقطیع کا طریقہ تو درست ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے "تخیل" کا تلفظ مفعول باندھا ہے، لیکن اس کا درست وزن فعولن ہے۔
اقبال:
ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
 
تقطیع کا طریقہ تو درست ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے "تخیل" کا تلفظ مفعول باندھا ہے، لیکن اس کا درست وزن فعولن ہے۔
اقبال:
ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے

میرا خیال ہے دونوں تلفظ درست ہیں
تخیّل اور تخیل
ت + خی + ل
ت + خی + یل
 
میرا خیال ہے دونوں تلفظ درست ہیں
تخیّل اور تخیل
ت + خی + ل
ت + خی + یل

میرے خیال میں تخیل اور تخییل میں لازم اور متعدی کا فرق ہے۔ دونوں کے معانی میں بھی فرق ہے۔ اور شعر کے حوالے سے اصطلاح تخیل بوزن فعولن ہی شاید درست ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میرے خیال میں تخیل اور تخییل میں لازم اور متعدی کا فرق ہے۔ دونوں کے معانی میں بھی فرق ہے۔ اور شعر کے حوالے سے اصطلاح تخیل بوزن فعولن ہی شاید درست ہے۔
درست کہا ۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ عموما اردو میں ایسے الفاظ کا پہلی "ی" کو "ء" سے بدل دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ مثلاً تزئین۔تخئیل۔اس کی اصل شکل تزیین اور تخییل ہی ہے فارسی میں بھی غالبا اصلی شکل میں مستعمل ہیں۔
خیام کے تراجم میں محشر نقوی صاحب نے باندھا ہے کہ
یہ ذہن رسائے انساں کی تخئیل کاہے سب افسانہ۔
 
درست کہا ۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ عموما اردو میں ایسے الفاظ کا پہلی "ی" کو "ء" سے بدل دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ مثلاً تزئین۔تخئیل۔اس کی اصل شکل تزیین اور تخییل ہی ہے فارسی میں بھی غالبا اصلی شکل میں مستعمل ہیں۔
خیام کے تراجم میں محشر نقوی صاحب نے باندھا ہے کہ
یہ ذہن رسائے انساں کی تخئیل کاہے سب افسانہ۔
جی یہ تو املائی فرق ہے جو عربی سے امتیاز میں لکھا جاتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں۔ تاہم شعر یا دوسری اصناف کے حوالے سے کوئی مضمون یا منظر کے "خیال میں آنے" کا عمل شاید تخیل ہی ہے جسے ہم محاسنِ سخن میں پڑھتے ہیں۔ اس حوالے سے چند اشعار:

نا پید ترے بحرِ تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
-علامہ اقبال

وہ اس وقت اک پیکرِ نور ہوتی
تخیل کی پرواز سے دور ہوتی
-اسرار الحق مجاز

ابھی ذہن میں تھا یہ روشن تخیل
فضا میں جو اڑتا چلا جا رہا ہے
-کیفی اعظمی

شباب جس سے تخیل پہ بجلیاں برسیں
وقار جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں
-فیض

کم سے کم حسنِ تخیل کا تماشا دیکھتے
جلوۂ یوسف تو کیا خوابِ زلیخا دیکھتے
-اصغر گونڈوی

تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار

-علامہ اقبال
 
اچھے شعر کہتی ہیں آپ۔ باقی اختلافات ہو سکتے ہیں مگر ہمیں تو کلام کی روانی ہی پسند آئی ہے۔ شاید اس میں اصلاح کا دخل ہو۔ داد بہرحال ہم آپ ہی کو دیں گے!
 
شباب جس سے تخیل پہ بجلیاں برسیں
وقار جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں
کیا یاد دلا دیا شیخ صاحب۔ آپ تو ہمیں بھی بسمل بنا ڈالیں گے۔ کیا خوبصورت مثال دی ہے۔
پیالہ گیر کہ مے را حلال می گویند
حدیث اگرچہ ضعیف است راویاں ثقہ اند​
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جی یہ تو املائی فرق ہے جو عربی سے امتیاز میں لکھا جاتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں۔ تاہم شعر یا دوسری اصناف کے حوالے سے کوئی مضمون یا منظر کے "خیال میں آنے" کا عمل شاید تخیل ہی ہے جسے ہم محاسنِ سخن میں پڑھتے ہیں۔ اس حوالے سے چند اشعار:

نا پید ترے بحرِ تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
-علامہ اقبال

وہ اس وقت اک پیکرِ نور ہوتی
تخیل کی پرواز سے دور ہوتی
-اسرار الحق مجاز

ابھی ذہن میں تھا یہ روشن تخیل
فضا میں جو اڑتا چلا جا رہا ہے
-کیفی اعظمی

شباب جس سے تخیل پہ بجلیاں برسیں
وقار جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں
-فیض

کم سے کم حسنِ تخیل کا تماشا دیکھتے
جلوۂ یوسف تو کیا خوابِ زلیخا دیکھتے
-اصغر گونڈوی

تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار

-علامہ اقبال
جی ہاں بالکل ۔۔۔۔ میں در اصل تخییل کے بارے میں کہہ رہا تھا ، باقی رہا تخیُّل۔سو وہ تو ہے ہی شعر کی معنوی بنیاد ۔
 
دل ، زخم گنتے گنتے وحشی سا ہو گیا ہے
اس زندگی نے مجھ کو اتنا تھکا دیا ہے

میں جس کی جستجو میں پھرتی نگر نگر ہوں
آئینہ بن کے میرا مجھ میں مکیں رہا ہے

بسمل کی مثل بے جاں میں رقص سے ہوئی جب
دیکھا تماشہ سب نے کب آسرا دیا ہے

جاتے ہوئے بھی مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو کوئی نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے

خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
مشکل سفر کو میں نے اطمیناں سے سہا ہے

تھا قرض جاں پہ اس کی ، وہ واجِبُ الاَدا ہے
میں کیا گلہ کروں اب، وہ دور جا بسا ہے

آوارگی سے اب ہیں سارے ہی ربط دل کے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن لگا بھلا ہے

تم روبرو ہوئے جب، ہیں حرف سانس لیتے
یادوں کا باب اک اور ہونے رقم لگا ہے

اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعر جس کی خاطر برسوں سے جو کہا ہے​
بہت خوب
 

Mystic Enigma

محفلین
دل ، زخم گنتے گنتے وحشی سا ہو گیا ہے!
اس زندگی نے مجھ کو اتنا تھکا دیا ہے!

تھا قرض جاں پہ اس کی وہ واجِبُ الاَدا ہے!
اب کیا گلہ ہو اس پر جو دور جا بسا ہے!

میں جس کی جستجو میں پھرتی نگر نگر ہوں
آئینہ بن کے میرا مجھ میں مکیں رہا ہے!

خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
مشکل سفر کو میں نے آرام سے سہا ہے!

رشتے تمام دل کے آوارگی سےنکلے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن لگا بھلا ہے

جاتے ہوئے بھی، مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو تو کچھ نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے

بسمل کے رقص کو سب تکنے ضرور ٹھہرے
گِرتوں کو ،اس جہاں نے کب آسرا دیا ہے

جب میں نے گنگنائیں لکھ لکھ کے اس کی یادیں
احساس میں اُبھرنے چہرہ وہی لگا ہے
؛
اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعر جس کی خاطر مدت تلک کہا ہے​
بہت خوب!
 
دل ، زخم گنتے گنتے وحشی سا ہو گیا ہے!
اس زندگی نے مجھ کو اتنا تھکا دیا ہے!

تھا قرض جاں پہ اس کی وہ واجِبُ الاَدا ہے!
اب کیا گلہ ہو اس پر جو دور جا بسا ہے!

میں جس کی جستجو میں پھرتی نگر نگر ہوں
آئینہ بن کے میرا مجھ میں مکیں رہا ہے!

خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
مشکل سفر کو میں نے آرام سے سہا ہے!

رشتے تمام دل کے آوارگی سےنکلے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن لگا بھلا ہے

جاتے ہوئے بھی، مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو تو کچھ نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے

بسمل کے رقص کو سب تکنے ضرور ٹھہرے
گِرتوں کو ،اس جہاں نے کب آسرا دیا ہے

جب میں نے گنگنائیں لکھ لکھ کے اس کی یادیں
احساس میں اُبھرنے چہرہ وہی لگا ہے
؛
اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعر جس کی خاطر مدت تلک کہا ہے​
لطف آیا. عمدہ کاوش
 

نور وجدان

لائبریرین
تخییل اور تخیل دونوں کے معانی
اچھے شعر کہتی ہیں آپ۔ باقی اختلافات ہو سکتے ہیں مگر ہمیں تو کلام کی روانی ہی پسند آئی ہے۔ شاید اس میں اصلاح کا دخل ہو۔ داد بہرحال ہم آپ ہی کو دیں گے!
شکریہ ۔۔آپ کی طرف سے داد باعثِ تحسین ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
دل ، زخم گنتے گنتے وحشی سا ہو گیا ہے
یہ درد پیتے پیتے میخانہ ہی بنا ہے

دل ڈھونڈ ڈھونڈ جس کو دیوانہ بن چکا ہے
آئینہ بن کے میرا مجھ میں مکیں رہا ہے!

جاتے ہوئے پلٹ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو تو اک نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے

وعدہ وفا کا کرکے پورا نہ کر سکا ہے
شکوہ بھی میں کروں کیا وہ دور جا چکا ہے

میری انا کو اس نے نامِ جفا دیا ہے
حیلوں سے ہی وفا کوبدنام تو کیا ہے

خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
مشکل سفر کو میں نے آرام سے سہا ہے!

رشتے تمام دل کے آوارگی سےنکلے
رنجش سے ہے محبت دشمن لگا بھلا ہے

بسمل کے رقص پر سب تکنے ضرور ٹھہرے
گرتوں کو اس جہاں نے کب آسرا دیا ہے

خوں اس قدر جو میرے زخموں سے بھی بہا ہے
ہر حرف نے پہن لی سرخی کی ہی قبا ہے

اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعر جس کی خاطر مدت تلک کہا ہے

یہ غزل محترم الف عین توجہ کی طالب ہے



سید عاطف علی راحیل فاروق ادب دوست فاروق احمد بھٹی عبدالقیوم چوہدری

شوکت پرویز
 
آخری تدوین:
Top