شوکت پرویز
محفلین
آپ اشعار کی تقطیع کس طرح کرتی ہیں؟
اس کی تقطیع کریں، ممکن ہو تو یہاں پر بتائیں کہ آپ نے تقطیع کس طرح کی۔جب میں نے گنگنائیں لکھ لکھ کے اس کی یادیں
تخیل میں اُبھرنے چہرہ وہی لگا ہے
تقطیع کا طریقہ تو درست ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے "تخیل" کا تلفظ مفعول باندھا ہے، لیکن اس کا درست وزن فعولن ہے۔
اقبال:
ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
میرا خیال ہے دونوں تلفظ درست ہیں
تخیّل اور تخیل
ت + خی + ل
ت + خی + یل
درست کہا ۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ عموما اردو میں ایسے الفاظ کا پہلی "ی" کو "ء" سے بدل دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ مثلاً تزئین۔تخئیل۔اس کی اصل شکل تزیین اور تخییل ہی ہے فارسی میں بھی غالبا اصلی شکل میں مستعمل ہیں۔میرے خیال میں تخیل اور تخییل میں لازم اور متعدی کا فرق ہے۔ دونوں کے معانی میں بھی فرق ہے۔ اور شعر کے حوالے سے اصطلاح تخیل بوزن فعولن ہی شاید درست ہے۔
جی یہ تو املائی فرق ہے جو عربی سے امتیاز میں لکھا جاتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں۔ تاہم شعر یا دوسری اصناف کے حوالے سے کوئی مضمون یا منظر کے "خیال میں آنے" کا عمل شاید تخیل ہی ہے جسے ہم محاسنِ سخن میں پڑھتے ہیں۔ اس حوالے سے چند اشعار:درست کہا ۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ عموما اردو میں ایسے الفاظ کا پہلی "ی" کو "ء" سے بدل دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ مثلاً تزئین۔تخئیل۔اس کی اصل شکل تزیین اور تخییل ہی ہے فارسی میں بھی غالبا اصلی شکل میں مستعمل ہیں۔
خیام کے تراجم میں محشر نقوی صاحب نے باندھا ہے کہ
یہ ذہن رسائے انساں کی تخئیل کاہے سب افسانہ۔
کیا یاد دلا دیا شیخ صاحب۔ آپ تو ہمیں بھی بسمل بنا ڈالیں گے۔ کیا خوبصورت مثال دی ہے۔شباب جس سے تخیل پہ بجلیاں برسیں
وقار جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں
جی ہاں بالکل ۔۔۔۔ میں در اصل تخییل کے بارے میں کہہ رہا تھا ، باقی رہا تخیُّل۔سو وہ تو ہے ہی شعر کی معنوی بنیاد ۔جی یہ تو املائی فرق ہے جو عربی سے امتیاز میں لکھا جاتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں۔ تاہم شعر یا دوسری اصناف کے حوالے سے کوئی مضمون یا منظر کے "خیال میں آنے" کا عمل شاید تخیل ہی ہے جسے ہم محاسنِ سخن میں پڑھتے ہیں۔ اس حوالے سے چند اشعار:
نا پید ترے بحرِ تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
-علامہ اقبال
وہ اس وقت اک پیکرِ نور ہوتی
تخیل کی پرواز سے دور ہوتی
-اسرار الحق مجاز
ابھی ذہن میں تھا یہ روشن تخیل
فضا میں جو اڑتا چلا جا رہا ہے
-کیفی اعظمی
شباب جس سے تخیل پہ بجلیاں برسیں
وقار جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں
-فیض
کم سے کم حسنِ تخیل کا تماشا دیکھتے
جلوۂ یوسف تو کیا خوابِ زلیخا دیکھتے
-اصغر گونڈوی
تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار
-علامہ اقبال
بہت خوبدل ، زخم گنتے گنتے وحشی سا ہو گیا ہے
اس زندگی نے مجھ کو اتنا تھکا دیا ہے
میں جس کی جستجو میں پھرتی نگر نگر ہوں
آئینہ بن کے میرا مجھ میں مکیں رہا ہے
بسمل کی مثل بے جاں میں رقص سے ہوئی جب
دیکھا تماشہ سب نے کب آسرا دیا ہے
جاتے ہوئے بھی مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو کوئی نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے
خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
مشکل سفر کو میں نے اطمیناں سے سہا ہے
تھا قرض جاں پہ اس کی ، وہ واجِبُ الاَدا ہے
میں کیا گلہ کروں اب، وہ دور جا بسا ہے
آوارگی سے اب ہیں سارے ہی ربط دل کے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن لگا بھلا ہے
تم روبرو ہوئے جب، ہیں حرف سانس لیتے
یادوں کا باب اک اور ہونے رقم لگا ہے
اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعر جس کی خاطر برسوں سے جو کہا ہے
بہت خوب!دل ، زخم گنتے گنتے وحشی سا ہو گیا ہے!
اس زندگی نے مجھ کو اتنا تھکا دیا ہے!
تھا قرض جاں پہ اس کی وہ واجِبُ الاَدا ہے!
اب کیا گلہ ہو اس پر جو دور جا بسا ہے!
میں جس کی جستجو میں پھرتی نگر نگر ہوں
آئینہ بن کے میرا مجھ میں مکیں رہا ہے!
خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
مشکل سفر کو میں نے آرام سے سہا ہے!
رشتے تمام دل کے آوارگی سےنکلے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن لگا بھلا ہے
جاتے ہوئے بھی، مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو تو کچھ نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے
بسمل کے رقص کو سب تکنے ضرور ٹھہرے
گِرتوں کو ،اس جہاں نے کب آسرا دیا ہے
جب میں نے گنگنائیں لکھ لکھ کے اس کی یادیں
احساس میں اُبھرنے چہرہ وہی لگا ہے
؛
اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعر جس کی خاطر مدت تلک کہا ہے
لطف آیا. عمدہ کاوشدل ، زخم گنتے گنتے وحشی سا ہو گیا ہے!
اس زندگی نے مجھ کو اتنا تھکا دیا ہے!
تھا قرض جاں پہ اس کی وہ واجِبُ الاَدا ہے!
اب کیا گلہ ہو اس پر جو دور جا بسا ہے!
میں جس کی جستجو میں پھرتی نگر نگر ہوں
آئینہ بن کے میرا مجھ میں مکیں رہا ہے!
خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
مشکل سفر کو میں نے آرام سے سہا ہے!
رشتے تمام دل کے آوارگی سےنکلے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن لگا بھلا ہے
جاتے ہوئے بھی، مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو تو کچھ نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے
بسمل کے رقص کو سب تکنے ضرور ٹھہرے
گِرتوں کو ،اس جہاں نے کب آسرا دیا ہے
جب میں نے گنگنائیں لکھ لکھ کے اس کی یادیں
احساس میں اُبھرنے چہرہ وہی لگا ہے
؛
اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعر جس کی خاطر مدت تلک کہا ہے
شکریہ ۔۔آپ کی طرف سے داد باعثِ تحسین ہےاچھے شعر کہتی ہیں آپ۔ باقی اختلافات ہو سکتے ہیں مگر ہمیں تو کلام کی روانی ہی پسند آئی ہے۔ شاید اس میں اصلاح کا دخل ہو۔ داد بہرحال ہم آپ ہی کو دیں گے!
بہت خوب
شکریہلطف آیا. عمدہ کاوش
شکریہبہت خوب!