میر دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا

دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا
آ پڑی یہ ایسی چنگاری کہ پیراہن جلا
سرکشی ہی ہے جو دِکھلاتی ہے اس مجلس میں داغ
ہو سکے تو شمع ساں دیجے رگِ گردن جلا
بدر ساں اب آخر آخر چھا گئی مجھ پر یہ آگ
ورنہ پہلے تھا مِرا جوں ماہِ نو دامن جلا
کب تلک دھونی لگائے جوگیوں کی سی رہوں
بیٹھے بیٹھے در پہ تیرے تو مِرا آسن جلا
سوکھتے ہی آنسوؤں کے نور آنکھوں سے گیا
بجھ ہی جاتے ہیں دِیے جس وقت سب روغن جلا
آگ سی اِک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میرؔ
دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بدر ساں اب آخر آخر چھا گئی مجھ پر یہ آگ​
ورنہ پہلے تھا مِرا جوں ماہِ نو دامن جلا​
کب تلک دھونی لگائے جوگیوں کی سی رہوں​
بیٹھے بیٹھے در پہ تیرے تو مِرا آسن جلا​
سوکھتے ہی آنسوؤں کے نور آنکھوں سے گیا​
بجھ ہی جاتے ہیں دِیے جس وقت سب روغن جلا​
آگ سی اِک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میرؔ​
دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا​

واہ
کیا خوب انتخاب ہے۔
لاجواب اشعار
خدائے سخن کے کلام کے اعلیٰ ہونے میں کوئی کلام نہیں۔
شاد باد رہیے۔
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ جناب سید شہزاد ناصر صاحب۔ آپ کا انتخاب ہمیشہ ہی لاجواب ہوتا ہے۔ یہ خوبصورت غزل پڑھوانے پر شکریہ

تین مزید اشعار کے ساتھ یہ مکمل غزل آپ کی محبتوں کی نذر
دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا
آ پڑی یہ ایسی چنگاری کہ پیراہن جلا

سر کشی ہی ہے جو دکھلاتی ہے اس مجلس میں داغ
ہو سکے تو شمع ساں دیجے رگِ گردن جلا

بدر ساں اب آخر آخر چھا گئی مجھ پر یہ آگ
ورنہ پہلے تھا مرا جوں ماہِ نو دامن جلا

کب تلک دھونی لگائے جوگیوں کی سی رہوں
بیٹھے بیٹھے در پہ تیرے تو مرا آسن جلا

گرمی اس آتش کے پرکالے سے رکھے چشم تب
جب کوئی میری طرح سے دیوے سب تن من جلا

ہو جو منت سے تو کیا وہ شب نشینی باغ کی
کاٹ اپنی رات کو خار و خسِ گلخن جلا

سوکھتے ہی آنسوؤں کے نور آنکھوں کا گیا
بجھ ہی جاتے ہیں دیے جس وقت سب روغن جلا

شعلہ افشانی نہیں یہ کچھ نئی اس آہ سے
دوں لگی ہے ایسی ایسی بھی کہ سارا بن جلا

آگ سی اک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میر
دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا​
 

باباجی

محفلین
واہ بہت ہی خوبصورت کلام


آگ سی اِک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میرؔ
دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا
 
واہ واہ جناب سید شہزاد ناصر صاحب۔ آپ کا انتخاب ہمیشہ ہی لاجواب ہوتا ہے۔ یہ خوبصورت غزل پڑھوانے پر شکریہ

تین مزید اشعار کے ساتھ یہ مکمل غزل آپ کی محبتوں کی نذر
دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا​
آ پڑی یہ ایسی چنگاری کہ پیراہن جلا​
سر کشی ہی ہے جو دکھلاتی ہے اس مجلس میں داغ​
ہو سکے تو شمع ساں دیجے رگِ گردن جلا​
بدر ساں اب آخر آخر چھا گئی مجھ پر یہ آگ​
ورنہ پہلے تھا مرا جوں ماہِ نو دامن جلا​
کب تلک دھونی لگائے جوگیوں کی سی رہوں​
بیٹھے بیٹھے در پہ تیرے تو مرا آسن جلا​
گرمی اس آتش کے پرکالے سے رکھے چشم تب​
جب کوئی میری طرح سے دیوے سب تن من جلا​
ہو جو منت سے تو کیا وہ شب نشینی باغ کی​
کاٹ اپنی رات کو خار و خسِ گلخن جلا​
سوکھتے ہی آنسوؤں کے نور آنکھوں کا گیا​
بجھ ہی جاتے ہیں دیے جس وقت سب روغن جلا​
شعلہ افشانی نہیں یہ کچھ نئی اس آہ سے​
دوں لگی ہے ایسی ایسی بھی کہ سارا بن جلا​
آگ سی اک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میر​
دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا​
خوش کیتا جناب :)
شاد و آباد رہیں
 

عمراعظم

محفلین
ہو جو منت سے تو کیا وہ شب نشینی باغ کی
کاٹ اپنی رات کو خار و خسِ گلخن جلا
واہ۔ بہت اعلیٰ کلام۔۔ سید شہزاد ناصر صاحب۔ آپ کے اسلام آباد کے سفر کی روداد سننے کا متمنی ہوں۔
 
ہو جو منت سے تو کیا وہ شب نشینی باغ کی
کاٹ اپنی رات کو خار و خسِ گلخن جلا
واہ۔ بہت اعلیٰ کلام۔۔ سید شہزاد ناصر صاحب۔ آپ کے اسلام آباد کے سفر کی روداد سننے کا متمنی ہوں۔
پسندیدگی پر ممنون ہوں
روداد سفر لکھنے کا حق میزبانوں کا بنتا ہے :)
کہیں دلشکنی نہ ہو جائے میں ان کے بعد لکھوں گا
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
السلام علیکم
آپ کی سخن فہمی کی داددیے بغیر نہیں رہا جاتا۔
کئی سال قبل کلیات میر کا باالاستیعاب مطالعہ کیا تھا۔ اب تو کچھ بھی یاد نہیں۔
یہ غزل قند مکرر کا مزہ دے گئی۔
 
Top