کاشف اسرار احمد
محفلین
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔ اساتذہ اکرام بالخصوص الف عین سر اور احباب سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
دل ترا ذوقِ شکیبائی رہے یا نہ رہے !
تُو بھی دھڑکن کا تمنّائی رہے یا نہ رہے !
تپتے سورج میں رہی ساتھ جو سائے کی طرح
کل یہی جسم کی پرچھائی رہے یا نہ رہے !
آسماں چومتے شہروں میں یہ رائج ہے کہ اب
ہر پڑوسی سے شناسائی رہے یا نہ رہے !
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
دل ترا ذوقِ شکیبائی رہے یا نہ رہے !
تُو بھی دھڑکن کا تمنّائی رہے یا نہ رہے !
تپتے سورج میں رہی ساتھ جو سائے کی طرح
کل یہی جسم کی پرچھائی رہے یا نہ رہے !
آسماں چومتے شہروں میں یہ رائج ہے کہ اب
ہر پڑوسی سے شناسائی رہے یا نہ رہے !
تین حصے تو لٹی عصمت و تہذیبِ زماں
تن پہ باقی ہے جو چوتھائی رہے یا نہ رہے !
تن پہ باقی ہے جو چوتھائی رہے یا نہ رہے !
دستِ حالات، سلامت ترے تحفے، لیکن
ظرفِ غم اب کے تماشائی رہے یا نہ رہے!
ظرفِ غم اب کے تماشائی رہے یا نہ رہے!
آج ہی بخش دے اے سرخوشی کچھ غم کے نگیں
ان کا پھر دل مرا شیدائی رہے یا نہ رہے
آج دل مائلِ حجّت نہیں جتنے ہوں ستم
کیا پتا کل یہی پسپائی رہے یا نہ رہے !
ایک اک اینٹ بغاوت پہ تُلی ہے گھر کی
گھر جناب آپ کا آبائی رہے یا نہ رہے !
رَہ بنا لیتا ہوں مشکل میں یہ خوبی ہے مگر
وصف فطرت کا یہ دریائی رہے یا نہ رہے !
نت نئے ان کے ستم، رنگِ مروّت میرے !
جانے دونوں کی یہ یکتائی رہے یا نہ رہے!
آج ہر شعر ترے طرزِ تخاطب پہ نثار
کل طبیعت میں پزیرائی رہے یا نہ رہے !
بحرِ ذخّارِ حوادث میں اب اترو کاشف
عزم میں پھر یہ توانائی رہے یا نہ رہے !
ان کا پھر دل مرا شیدائی رہے یا نہ رہے
آج دل مائلِ حجّت نہیں جتنے ہوں ستم
کیا پتا کل یہی پسپائی رہے یا نہ رہے !
ایک اک اینٹ بغاوت پہ تُلی ہے گھر کی
گھر جناب آپ کا آبائی رہے یا نہ رہے !
رَہ بنا لیتا ہوں مشکل میں یہ خوبی ہے مگر
وصف فطرت کا یہ دریائی رہے یا نہ رہے !
نت نئے ان کے ستم، رنگِ مروّت میرے !
جانے دونوں کی یہ یکتائی رہے یا نہ رہے!
آج ہر شعر ترے طرزِ تخاطب پہ نثار
کل طبیعت میں پزیرائی رہے یا نہ رہے !
بحرِ ذخّارِ حوادث میں اب اترو کاشف
عزم میں پھر یہ توانائی رہے یا نہ رہے !