مہ جبین
محفلین
دل سلامت رہے رحمت کی نظر ہونے تک
یہ مکاں بیٹھ نہ جائے کہیں گھر ہونے تک
مجھ کو آئینہ بنایا ہے مِرے آقا نے
سنگ تھا میں ، نگہِ آئینہ گر ہونے تک
آپ سب جانتے ہیں ، آپ سےپنہاں کیا ہے
کیسے گزری ہے شبِ ہجر ، سحر ہونے تک
مجھ کو آجائے گا مدحت کا سلیقہ آخر
وہ چھپالیں گے مِرے عیب ہنر ہونے تک
دیکھیں کب موج میں آتا ہے وہ دریائے کرم
" دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک "
اب تو ہر سمت وہی وہ ہیں نگاہوں کے حضور
دل میں پنہاں تھے وہ مسجودِ نظر ہونے تک
کہیں محرومِ زیارت ہی نہ رہ جاؤں ایاز
مر نہ جاؤں کہیں آقا کو خبر ہونے تک
ایاز صدیقی