سلمان دانش جی
معطل
دل شب ِ وصل کیِ لذت کا شناسا ہے اسے
شب کی ظلمت پہ بھی زلفوں کا گماں ہوتا ہے
لوگ ملتے ہیں تو محسوس یہ ہوتا ہے مجھے
جیسے ہر رنگ میں، ہم دونوں ملا کرتے ہیں
اور پھر اپنی سلگتی ہوئی تنہائی میں
اپنی خوش رنگیء احساس پہ ہنس دیتا ہوں
جبکہ مدت سے ترا چاند سا روشن چہرہ
میں نے دیکھا ہی نہیں، پھر یہ تماشہ کیا ہے؟
تو ہے وہ چاند جو آکاش پہ چمکا تھا مرے
اور آنگن میں کسی اور کے جا اترا ہے
اس حقیقیت کو سمجھتا ہوں میں لیکن پھر بھی
دل یہ پاگل ہے کسی طور سمجھتا ہی نہیں
ہر طرف ڈھونڈتا پھرتا ہے تجھے آوارہ
اپنے احساس کا یہ روپ انوکھا ہی سہی
تیرے ملنے کی توقع بھی نہیں ہے لیکن
تجھ کو پالینے کی خواہش کا یہ پہلو کیا ہے؟
مجھ کو ہر چہرے میں ملتے ہیں خدوخال ترے
میں نے ہر شکل میں دیکھا ہے ترا عکسِ جمال
جس طرح تیری محبت کے صنم خانے میں
تیرے ہر روپ کے ترشے ہوئے بت رکھے ہیں
اور میں حسنِ بتاں کا وہ پجاری ہوں جسے
تو نے وہ پیار دیا ہے کہ محبت کے سوا
اب کسی اور عبادت کا تصور بھی نہیں
تو ہی بتلا دے کہ کافر کہ مسلمان ہوں میں
یا محبت کا عقیدہ ہے دو عالم سے جدا
جو تجھے سوچتا ہے عالمِ انساں سے ورا
یہ محبت ہے، جنوں ہے کہ ہے نیرنگ کوئی
میرے محبوب بتا تو ہی، تماشہ کیا ہے؟
جب سے زندانِ شب ِ ہجر کا قیدی ہے یہ دل
شب کی ظلمت پہ بھی زلفوں کا گماں ہوتا ہے
سلمان دانش جی
شب کی ظلمت پہ بھی زلفوں کا گماں ہوتا ہے
لوگ ملتے ہیں تو محسوس یہ ہوتا ہے مجھے
جیسے ہر رنگ میں، ہم دونوں ملا کرتے ہیں
اور پھر اپنی سلگتی ہوئی تنہائی میں
اپنی خوش رنگیء احساس پہ ہنس دیتا ہوں
جبکہ مدت سے ترا چاند سا روشن چہرہ
میں نے دیکھا ہی نہیں، پھر یہ تماشہ کیا ہے؟
تو ہے وہ چاند جو آکاش پہ چمکا تھا مرے
اور آنگن میں کسی اور کے جا اترا ہے
اس حقیقیت کو سمجھتا ہوں میں لیکن پھر بھی
دل یہ پاگل ہے کسی طور سمجھتا ہی نہیں
ہر طرف ڈھونڈتا پھرتا ہے تجھے آوارہ
اپنے احساس کا یہ روپ انوکھا ہی سہی
تیرے ملنے کی توقع بھی نہیں ہے لیکن
تجھ کو پالینے کی خواہش کا یہ پہلو کیا ہے؟
مجھ کو ہر چہرے میں ملتے ہیں خدوخال ترے
میں نے ہر شکل میں دیکھا ہے ترا عکسِ جمال
جس طرح تیری محبت کے صنم خانے میں
تیرے ہر روپ کے ترشے ہوئے بت رکھے ہیں
اور میں حسنِ بتاں کا وہ پجاری ہوں جسے
تو نے وہ پیار دیا ہے کہ محبت کے سوا
اب کسی اور عبادت کا تصور بھی نہیں
تو ہی بتلا دے کہ کافر کہ مسلمان ہوں میں
یا محبت کا عقیدہ ہے دو عالم سے جدا
جو تجھے سوچتا ہے عالمِ انساں سے ورا
یہ محبت ہے، جنوں ہے کہ ہے نیرنگ کوئی
میرے محبوب بتا تو ہی، تماشہ کیا ہے؟
جب سے زندانِ شب ِ ہجر کا قیدی ہے یہ دل
شب کی ظلمت پہ بھی زلفوں کا گماں ہوتا ہے
سلمان دانش جی
آخری تدوین: