دل غم سے ترے لگا گئے ہم - میر غلام حسن

کاشفی

محفلین
غزل
(میر غلام حسن)
دل غم سے ترے لگا گئے ہم
کس آگ سے گھر جلا گئے ہم
ماتم کدہ جہاں میں چوں شمع
رو رو کے جگر بہا گئے ہم
مانندحباب اس جہاں میں
کیا آئے تھے اور کیا گئے ہم
کھویا گیا اس میں گو دل اپنا
پر یار تجھے تو پا گئے ہم
آتا ہے یہی تو ہم کو رونا
یوں موت کا غم بھلا گئے ہم
افسانہ سرگذشت چوں شمع
رو رو کے بہت سنا گئے ہم
تھا ہم میں اور اُس میں وہ جو پردہ
سو اس کو حسن اُٹھا گئے ہم
 

کاشفی

محفلین
میر حسن
تعارفِ شاعر: میر غلام حسن نام، حسن تخلص۔ میر غلام حسین ضاحک کے بیٹے۔ ان کے باپ دادا ہرات کے رہنے والے تھے۔ میر حسن کے دادا امام ہروی نے زمانہ کے انقلاب کے ہاتھوں وطن چھوڑ کر پرانی دلّی بسائی۔ یہیں میر ضاحک پیدا ہوئے۔ میر حسن کا ابتدائی زمانہ یہیں بسر ہوا۔ بارہ برس کے سن میں باپ کے ساتھ فیض آباد آئے۔ کچھ دنوں وہاں رہ کر لکھنؤ میں آبسے۔ شاعری باپ دادا سے ملی تھی۔ اودھ میں آکر میر ضیاء الدین ضیا کے شاگرد ہوئے۔ مگر ان کے طریقہ پر نہ چل سکے۔ میر درد ، مرزا رفیع سودا اور میر تقی میر کے کلام کی پیروی کی۔ 1201ہجری میں ان کی وفات ہوئی۔ مفتی گنج لکھنؤ میں نواب قاسم علی خاں کے باغ کے پچھواڑے دفن ہوئے۔ مصحفی نے "شاعر شیریں زباں" سے تاریخ نکالی:
ان کے تین بیٹے تھے۔ میر متحسن خلیق۔ میر احسن خلق اور میر محن محسن۔ ان سب کا قیام فیض آباد میں رہتا تھا۔ یہ اپنے باپ دادا کے برخلاف ڈاڑھی منڈاتے۔ پگڑی اگلے لوگوں کی طرح باندھتے اور پوشاک اپنے باپ کی سی پہنتے تھے۔ یعنی سبز عمامہ اور بڑا جُبّہ۔ قد لمبا تھا۔ رنگ بھورا۔ نہایت اچھی عادت کے اور ہنس مُکھ تھے۔ بیہودہ کلام کبھی اپنے منہ سے نہ نکلالتے۔ پڑھے لکھے آدمی تھے اور فارسی میں اچھی قابلیت تھی۔
ان کی کلیات میں غزل، قصیدہ، مثنوی، واسوخت، ہجو، رباعی سب ہی کچھ ہیں ۔ غالباَ مرثیے بھی انہوں نے کہے تھے جو چھپے نہیں۔ غزلوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ان کا رتبہ بہت بلند ہے۔ غزلیں قریب قریب پانچ سو ہونگی۔ مشکل بات کو پسند نہیں کرتے تھے۔ استعارہ وغیرہ کا اہتمام ان کے یہاں نہیں۔ کلام صاف اور مزیدار ہے۔ کہیں کہیں تصوف کی بھی جھلک پائی جاتی ہے۔ غزلیں چھوٹی چھوٹی ہیں۔ قصیدے بھی اچھے ہیں۔ مثنویاں بھی کئی ہیں۔
 
Top