کاشف اسرار احمد
محفلین
کافی دن سے ایک غزل اصلاح کے لئے پیش کرنا چاہ رہا تھا ۔ لیکن اس غزل میں اب تک تو مطلع اور مقطع کہہ نہیں پایا ۔
کیا کیا جائے ؟ اس کی قسمت ہی شاید ایسی ہے! اس گنجی غزل کو پھر بھی اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعلن فِعْلن
استاد محترم جناب الف عین سر سےبطورِ خاص اصلاح کی درخواست ہے دیگر احباب کے مشوروں اور تبصروں کا بھی منتظر ہوں۔؎
کیا کیا جائے ؟ اس کی قسمت ہی شاید ایسی ہے! اس گنجی غزل کو پھر بھی اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فاعلاتن مفاعلن فِعْلن
استاد محترم جناب الف عین سر سےبطورِ خاص اصلاح کی درخواست ہے دیگر احباب کے مشوروں اور تبصروں کا بھی منتظر ہوں۔؎
*******............********............********
اس کی معصوم اجنبیت سے
دل میں بڑھتی ہوئی، کسک دیکھوں !
حسنِ فطرت کے معترف سب ہیں
میں چمن زارِ قلب تک دیکھوں !
دکھ کے ریزے رگوں میں ہیں اتنے
طنز کے تیر بے جھجھک دیکھوں !
میری منطق نے پا لیا چہرہ
اپنی آواز میں لپک دیکھوں !
آئینہ توڑ دوں، تو پھر کس میں؟
اپنے ہر غم کو مشترک دیکھوں !
ایک آغاز گھات میں ہے مری
موڑ پر، گھومتی سڑک دیکھوں !
اُف، خیالوں کا کربِ پیدائش !
اٹھتے دامن کو آنکھ تک دیکھوں !
زندگی تُو ہی دوستی کر لے!
موت کا رستہ کب تلک دیکھوں !
*******............********............********
شکریہ۔اس کی معصوم اجنبیت سے
دل میں بڑھتی ہوئی، کسک دیکھوں !
حسنِ فطرت کے معترف سب ہیں
میں چمن زارِ قلب تک دیکھوں !
دکھ کے ریزے رگوں میں ہیں اتنے
طنز کے تیر بے جھجھک دیکھوں !
میری منطق نے پا لیا چہرہ
اپنی آواز میں لپک دیکھوں !
آئینہ توڑ دوں، تو پھر کس میں؟
اپنے ہر غم کو مشترک دیکھوں !
ایک آغاز گھات میں ہے مری
موڑ پر، گھومتی سڑک دیکھوں !
اُف، خیالوں کا کربِ پیدائش !
اٹھتے دامن کو آنکھ تک دیکھوں !
زندگی تُو ہی دوستی کر لے!
موت کا رستہ کب تلک دیکھوں !
*******............********............********