دل میں دھماکہ ازنذیرناجی (روزنامہ جنگ)

قمراحمد

محفلین
دل میں دھماکہ​

سویرے سویرے
نذیرناجی​

بزرگان دین کے مزارات اسلامی دنیا کی شناخت اور عقیدت کا مظہر ہوتے ہیں۔ مسلک اور عقیدہ کوئی ہو،سب کسی نہ کسی انداز میں‘ اپنے اپنے محترم اور محبوب روحانی پیشواؤں کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ برصغیر میں سنی العقیدہ مسلمانوں کی اکثریت بہت زیادہ ہے۔ مولانا شاہ احمدنورانی اسی لئے انہیں ”سواداعظم“ کہا کرتے تھے۔ برصغیر میں چند درگاہیں مسلک اور عقیدے سے بالاتر ہو چکی ہیں۔ وہاں ہر عقیدے کے مسلمان ہی نہیں‘ مختلف مذاہب کے لوگ بھی نذرانہ عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔ ان میں سرفہرست حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش، خواجہ فرید الدین چشتی، حضرت شہباز قلندر، شاہ عبداللہ غازی، حضرت میاں میر، خواجہ نظام الدین اولیاء، حضرت سلطان باہو۔ میں نے صرف چند نام لکھے ہیں ورنہ جو بھی درگاہ جہاں پر موجود ہے، وہیں عقیدت مندوں کے ہجوم موجود رہتے ہیں۔ ان درگاہوں نے ہر عقیدے کے مسلمانوں کو محبت کے ایک ہی رشتے میں باندھ رکھا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جہاں ملا نفرتیں سکھاتا اور پھیلاتا ہے، وہاں بزرگان دین کے یہ مزار محبتوں کی شمعیں روشن کر کے تعصب اور تنگ نظری کے اندھیروں کو دور کرتے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخشکے عقیدت مند بھی مذہب و مسلک سے بالاتر ہوتے ہیں۔ ان کے دربار میں ہر کوئی حاضری دیتا ہے اور اپنے عقیدے کے مطابق خدا کو یاد کر کے‘ ان بزرگوں کی فیوض و برکات کا اعتراف کرتے ہوئے نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہے۔ کراچی میں ایسٹرن کافی ہاؤس ہوا کرتا تھا۔ اس کے مالک پارسی تھے۔ خدا کرے اب بھی زندہ ہوں۔ وہ جب لاہور آتے، تو کبھی کبھارمجھے یاد کر لیا کرتے۔ میں نے نوٹ کیا کہ وہ ہوٹل میں اپنے کمرے سے ننگے پاؤں نکلتے اور اسی حالت میں گھومتے رہتے۔ استفسار پر انہوں نے بتایا کہ وہ لاہور میں صرف داتا صاحب کے مزار پہ حاضری دینے آتے ہیں۔ ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے جوتے اتار کے پیک کر لیتے ہیں۔ داتا کی نگری میں وہ ننگے پاؤں رہتے ہیں۔ واپسی کے لئے جہاز میں بیٹھنے کے بعد دوبارہ جوتا پہنتے ہیں۔ عقیدت کا یہ عالم بہت کم دیکھنے میں آتا ہے اور وہ بھی کسی غیرمسلم کے حوالے سے۔

تحریک پاکستان کے دوران تمام مسلمان اپنے اپنے مسلک سے بالاتر ہو کر وحدت کی ایک ہی لڑی میں پروئے گئے تھے۔ اس وقت بھی ملاؤں کی اکثریت تحریک پاکستان اور قائد اعظم کے خلاف تھی۔ ہر ایک اپنی حیثیت کے مطابق قیام پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھا۔ جتنے ملا حضرات آج بڑھ چڑھ کر پاکستان کے مالک اور وارث بنے بیٹھے ہیں، اگر ان میں اخلاقی جرات ہوتی تو قیام پاکستان کے بعد سیاست سے توبہ کر لیتے اور زندگی کا باقی حصہ خدا کی یاد میں گزارتے۔ لیکن بظاہر دین کے ان علمبرداروں میں سے بیشتر دنیا داری اور مفادپرستی میں آلودہ ہوتے ہیں اور اپنے مقاصد کے لئے دیگر مسالک کے خلاف زہر اگلتے ہیں، جو درحقیقت کاروباری حربہ ہے۔ ایسا کر کے وہ دوسرے مسالک کی ”مارکیٹ“ خراب کر کے اپنی مارکیٹ کی قدر بڑھاتے ہیں۔ مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ زیادہ لوگ ان کی طرف آئیں اور ان کا کاروبار ز یادہ چمکے۔ دین کی خدمت ان کا مقصد ہو، تو وہ ہر کلمہ گو کو ایک ہی نظر سے دیکھیں اور ہر وہ شخص جو رسول اللہﷺ کے آخری نبی ہونے پر یقین رکھتا ہے، اس کو اپنا بھائی تصور کریں۔ کیونکہ اسلام کا حکم یہی ہے۔ مگر وہ ایسا نہیں کرتے۔ جب میں تحریک پاکستان کے دنوں کو یاد کرتا ہوں، تو قائد اعظم کی قیادت میں جمع ہونے والے تمام لوگ فرقہ بندیوں سے آزاد ہوتے تھے۔ کوئی تقسیم نہیں تھی۔ کوئی تفرقہ نہیں تھا۔ سب ایک دوسرے کے عقیدوں اور مسالک کا احترام کیا کرتے تھے۔ فرقہ بندی نے اس وقت سر اٹھایا، جب پاکستان کی مخالفت کرنے والے ملاؤں نے پہلے اپنی پاکستان دشمنی کی یادیں بھلانے کے لئے لوپروفائل میں رہ کر وقت گزارا۔ جب دیکھا کہ لوگ ان کی پاکستان دشمنی کو بھولنے لگے ہیں، تو پہلے انہوں نے اپنے ماضی کی کارستانیوں کی وضاحتیں کیں۔ ایک عرصے تک دفاعی پوزیشن میں رہے اور جب پاکستانی عوام نے انہیں برداشت کرنا شروع کیا تو یہ تحریک پاکستان میں حصہ دار بننے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک نظریہ پاکستان ایجاد کر کے پاکستان کے ٹھیکیدار بن بیٹھے ہیں۔ جیسے ہی ان کے اثرات پھیلنے لگے، ان کی کاروباری صلاحیتیں نمایاں ہوئیں اور یہ بالکل دکانداروں کی طرح ایک دوسرے کے عقائد کو اسی طرح غلط قرار دینے لگے، جیسے کوئی صنعتکار دوسری مصنوعات کو ناقص قرار دے کر اپنے مال کو سراہتا ہے۔ ملاؤں کی اسی دکانداری نے لوگوں کو اپنے ہی بھائیوں کے خلاف بھڑکانا شروع کیا اور ہر کوئی دوسرے کو واجب القتل قرار دینے لگا۔ میں ہمیشہ سے ایک بات لکھتا ہوں کہ جب ریاست کو مذہبی بنایا جائے گا، تو اس میں مذہبی منافرتیں بھی در آئیں گی اور چونکہ ریاست اور سیاست میں دولت اور اختیار ہوتا ہے، اس لئے مذہب کے ٹھیکیدار ریاست اور دولت پر قبضے کے لئے ہر حربہ استعمال کریں گے اور اپنی ہر حرکت کے جواز میں مذہب کا نام استعمال کریں گے۔ یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ پہلے ایک مسلک کے لوگوں کو کافر قرار دیا گیا۔ پھر دوسرے مسلک والے کافر ٹھہرے اور اب ایک ہی مسلک کے لوگ دوسرا نقطہ نظر رکھنے والوں کو کافر کہنے لگے ہیں۔ دہشت گردی کی جو لعنت اسلام کے پردے میں نمودار ہوئی، اس میں عربوں کے اندر پیدا ہونے والا ایک گروہ پاکستان میں گھس آیا، جسے تکفیری کہا جاتا ہے۔ میں اپنے کالموں میں اس گروہ کی نشاندہی کرتا رہا ہوں۔ اس گروہ کے لوگ اپنے سوا سب کو کافر سمجھتے ہیں اور انہیں قتل کرنا کارثواب تصور کرتے ہیں۔ جو بچے اور نو عمر لڑکے ان کے فریب میں آ جاتے ہیں۔ یہ انہیں باقی دنیا سے کاٹ کر اس طرح الگ تھلگ کر دیتے ہیں کہ وہ نہ کسی کو مل سکتے ہیں نہ باہر کی دنیا میں کسی سے بات کر سکتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کے خیالات سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ ان کی اس طرح برین واشنگ کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی بڑے ہجوم میں خودکش حملہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ قاتلانہ حملہ کر کے وہ سیدھے جنت میں جائیں گے۔ شمالی وزیرستان میں تکفیریوں کا ایک پورا نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔ داتا دربار پر وحشیانہ حملے کے بعد عام شہریوں کا ردعمل یہ تھا کہ ”یہ کیسے مسلمان ہیں جو اپنے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں؟“ یہ بات سوفیصد درست ہے۔ حقیقت میں یہ تکفیری ٹولہ مسلمانوں کے ہر مسلک اور فرقے کو غلط اور گمراہ سمجھتا ہے۔ اپنے سوا کسی کو مسلمان نہیں مانتا۔ سب کو قتل کرنا اس کے عقیدے کا حصہ ہے۔ پاکستان میں ان کا وجود نہیں تھا۔ یہ افغان جہاد کے پردے میں ہماری سرزمین پر وارد ہوئے اور اب یہاں اپنے خفیہ مراکز بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔ طالبان کے نام پر کام کرنے والی کوئی سیاسی تحریک ان سے واسطہ نہیں رکھتی اور نہ ہی افغانستان اور پاکستان کے اندر بحالی امن کے لئے ہونے والا کوئی انتظام ان کی سرگرمیوں کا خاتمہ کر سکے گا۔ یہ گمراہوں کا ایک چھوٹا سا لیکن بے حد منظم ٹولہ ہے، جسے طالبان اور تمام مذہبی مسالک سے علیحدہ کر کے دیکھنا ہو گا اور اس سلسلے میں خفیہ ایجنسیوں کو متحرک اور عوام کو منظم کرنا پڑے گا۔ یاد رہے مذہبی دکاندار ان مخصوص دہشت گردوں سے اپنے اپنے مفادات کے تحت بھی کام لیتے ہیں۔لیکن داتا دربار کے دھماکے خالص مذہبی جنونیوں کا کام لگتا ہے۔ یہ دربار‘ جو درحقیقت ایک وسیع و عریض مسجد ہے۔ یہاں جمعرات کی شام لوگ عبادات کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ کوئی تلاوت کرتا ہے۔ کوئی حمد پڑھتا ہے۔ کوئی نعت پڑھتا ہے۔ کوئی وظیفے پڑھتا ہے اور کوئی خاموش بیٹھ کر دل ہی دل میں خدا کو یاد کرتا ہے۔ سب اپنے اپنے طریقے کے مطابق اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ ایسے پاکیزہ اجتماع میں دھماکہ کرنے کا حوصلہ صرف وہی شخص کر سکتا ہے‘ جو ساری دنیا کو غلط اور خود کو برحق سمجھتا ہو۔ ایسے لوگ صرف تکفیری گروہ میں ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کا کوئی فرقہ ایسی وحشت و درندگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔ہمارے تمام تفتیشی اداروں کو سیاسی اور روایتی دہشت گردوں کی بجائے‘ تکفیری نیٹ ورک کی طرف دیکھنا چاہیے۔ اگر یہ لوگ نہ پکڑے گئے‘ تو پاکستان میں کوئی درگاہ‘ کوئی مزار محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ ایک سلسلے کی ابتدا ہے۔ اسے دہشت گردی کی روایتی مہم سے علیحدہ کر کے دیکھنا چاہیے۔جگہ کا انتخاب بھی خالص تکفیری ذہن کی نشاندہی کرتا ہے۔ لاہور پاکستان کا دل ہے اور داتا دربار لاہور کا دل ہے اور یہ دھماکہ ہمارے دل میں کیا گیا ہے۔
 

خوشی

محفلین
شکریہ قمر اس شئیرنگ کے لئے،

اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دے اور صراط مستقیم پہ چلنے کی توفیق دے ، کاش لوگ اسلام کی صحیح تعلیم کو سمجھ سکیں مگر یہ تبھی ہو گا جب مسلمان خود اپنے مذھب کو سمجھ پائیں گے اور جنت میں جانے کے لئے خدا کی مخلوق کی بھلائی کے کام کریں گے نہ کہ ان کا خون بہانے کا
 
Top