ایم اے راجا
محفلین
آجکل استاد محترم پتہ نہیں کہاں گم ہیں
کہاں گم تھا؟ مجھے خود بھی علم نہیں!!!
بہر حال
دل پہ کیا کیا عتاب لایا ہےعشق گویا عذاب لایا ہے//درست
ہر سو بکھری ہیں کرچیاں دل کیہجر وہ انقلاب لایا ہے//انقلاب؟ اس سے کیا مراد ہے؟ کرچیوں سے کیا تعلق؟ اس کو بدل دو۔
بیچ کر آدمی سکونِ قلببدلے میں صرف خواب لایا ہے//درست
جو بھی لوٹا ہے شہرِ جاناں سےساتھ اپنے سراب لایا ہے//اس کو بھی بدل دو تو بہتر ہے۔ شہر جاناں میں کیا سراب بکتے ہیں؟
کون دیتا ہے ساتھ صدیوں تکآنکھ میں کیوں تو آب لایا ہے//آب لایا‘ سے یہاں مراد ’آنسو لانا‘ ہے، لیکن یہ محاورہ نہیں۔ اس کو بھی بدل دو۔ موجودہ حالت میں روانی اس طرح ممکن ہے کہ یوں کہا جائے۔
کیوں تو آنکھوں میں آب لایا ہے۔
اس سے یہ بات بھی درست ہو جاتی ہے کہ محبوب یک چشم نہیں ہے!!!
بحرِ ظلمت میں روشنی کر دیہاتھ میں آفتاب لایا ہے//بحرِ ظلمت کیوں؟ دشتِ ظلمت بہتر ہو گا۔
دشت ظلمت میں روشنی کے لئے
اس سے بہتر کوئی اور صورت بھی ہو سکتی ہے، جیسے
اندھی راتوں میں روشنی کے لئے
کھول کر آنکھ دیکھ تو راجاسبز موسم گلاب لایا ہے// درست