حمیرا عدنان
محفلین
دل چوری ہونے کی شکایت تو بہت پُرانی ہے، لیکن پہلی بار ایک عاشق اس چوری کی رپورٹ درج کرانے اور مسروقہ دل واپس دلوانے کے لیے پولیس اسٹیشن جاپہنچا۔
یہ واقعہ بھارتی شہر ناگ پور میں پیش آیا، جہاں ایک نوجوان اس ’’وقوعے‘‘ کی شکایت لے کر تھانے میں وارد ہوا اور پولیس کو بتایا کہ ایک لڑکی نے اس کا دل چُرالیا ہے، سو پولیس مالِ مسروقہ برآمد کرے۔ پولیس والوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ بھارتی قانون میں کوئی ایسی شق نہیں جس کے تحت یہ مقدمہ درج کیا جاسکے۔
ہمیں اس نوجوان سے پوری ہم دردی ہے، بتائیے بھلا، کتنی ناانصافی ہے، دل جیسی شئے کی چوری قانون کی نظر میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی! حالاں کہ یہ کوئی معمولی چوری نہیںِ، اس چوری کے بعد جیب اور اکاؤنٹ پر ماری جانے والی ڈکیتیوں کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ شادی کے بعد ہونے والی لوٹ مار پر بھی ختم نہیں ہوتا۔
پہلے دل چوری کیا جاتا ہے، پھر ملنے کے بہانے اچھے ہوٹلوں میں کھانے، ہر ملاقات پر تحفے لانے، موبائل فون کا بیلنس ڈلوانے، سال گرہ، ویلنٹائن ڈے اور تہواروں پر تحائف کی مَد میں پیسے نکلوانے کا چکر چلتا ہے تو چلے ہی جاتا ہے۔ اس کے بعد والدین کو گھر لانے پر اصرار کیا جاتا ہے، یوں معاملہ دل چرانے والی کو اپنے گھر لے جانے تک پہنچ جاتا ہے۔ یعنی جو بات چوری سے شروع ہوئی تھی وہ پوری سینہ زوری کے ساتھ اغواء برائے تاوان کی واردات بن جاتی ہے، جس میں اغواء کنندہ مغوی کے گھر میں رہتے ہوئے ساری عمر تاوان وصول کرتی ہے۔
اب آپ ہی بتائیے، دل کی چوری جیسے سنگین جُرم کی ’’رَپٹ‘‘ درج ہونی چاہیے یا نہیں؟
تاہم جہاں تک دل پھینک حضرات کا تعلق ہے وہ دل کھوجانے کی شکایت تو درج کراسکتے ہیں چوری کی نہیں۔ اگر پتا بھی ہو کہ گائے کی اوجھڑی کی طرح سینے سے نکال کر پھینکا گیا دل کس نے اٹھایا ہے، تب بھی اسے جُرم قرار دیا جاسکتا ہے نہ برآمدگی کا مطالبہ ممکن ہے، دل اٹھانے والا تو صاف کہہ دے گا ’’ہم نے تو اللہ کی زمین سے پایا ہے، یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ دل آپ کا ہے، کیا اس پر چیسز نمبر درج ہے؟‘‘
الزام کے جواب میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے ’’ہم نے ایک عدد دل بقرعید کی آلائش سمجھ کر اٹھایا تھا، جو میونسپلٹی کی کوڑا گاڑی کے حوالے کردیا۔‘‘ لو جی، کرلو جو کرنا۔ مرزاغالب کو بھی ایسے ہی ذہین محبوب کا سامنا تھا، چناں چہ فرماتے ہیں،’’کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا۔‘‘ غالب سے ان کے محبوب نے کہا ہوگا،’’حضرت! اپنا دل سینے میں سنبھال کر رکھیے، اگر کہیں گرگراگیا اور ہمیں مل گیا تو ہم اس کا سالن پکالیں گے یا میڈیکل کالج کے کسی طالب علم کو تجربے کے لیے دے دیں گے، پھر ہم پر چوری کا الزام مت لگائیے گا، نہ روتے رہیے گا کہ۔۔۔۔نہ جانے کہاں دل کھوگیا، بتائے دیتے ہیں۔‘‘ اس انتباہ کے باوجود ہوا یہ کہ:
غنچہ پھر لگا کِھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گُم کیا ہوا پایا
اب نہ جانے غالب نے اپنا گم کردہ دل ہانڈی میں پڑا پایا یا کسی طب کے طالب علم کی میز پر دھرا پایا، مگر ان کے بہ قول نتیجہ یہ نکلا کہ:
عرضِ نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
ناگ پور کے نوجوان اور ماضی کے عاشق اسداللہ خاں کی داستان سے کُل ملا کے یہ سبق ملتا ہے کہ دل نہ چوری ہونے دیا جائے نہ بال اور ناخن سمجھ کر پھینکا جائے، بہت سنبھال کر رکھا جائے، اور آنکھوں کی ہر واردات کے بعد سینے پر ہاتھ رکھ کر چیک کرلیا جائے کہ ہے کہ نہیں ہے۔
ماخذ
یہ واقعہ بھارتی شہر ناگ پور میں پیش آیا، جہاں ایک نوجوان اس ’’وقوعے‘‘ کی شکایت لے کر تھانے میں وارد ہوا اور پولیس کو بتایا کہ ایک لڑکی نے اس کا دل چُرالیا ہے، سو پولیس مالِ مسروقہ برآمد کرے۔ پولیس والوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ بھارتی قانون میں کوئی ایسی شق نہیں جس کے تحت یہ مقدمہ درج کیا جاسکے۔
ہمیں اس نوجوان سے پوری ہم دردی ہے، بتائیے بھلا، کتنی ناانصافی ہے، دل جیسی شئے کی چوری قانون کی نظر میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی! حالاں کہ یہ کوئی معمولی چوری نہیںِ، اس چوری کے بعد جیب اور اکاؤنٹ پر ماری جانے والی ڈکیتیوں کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ شادی کے بعد ہونے والی لوٹ مار پر بھی ختم نہیں ہوتا۔
پہلے دل چوری کیا جاتا ہے، پھر ملنے کے بہانے اچھے ہوٹلوں میں کھانے، ہر ملاقات پر تحفے لانے، موبائل فون کا بیلنس ڈلوانے، سال گرہ، ویلنٹائن ڈے اور تہواروں پر تحائف کی مَد میں پیسے نکلوانے کا چکر چلتا ہے تو چلے ہی جاتا ہے۔ اس کے بعد والدین کو گھر لانے پر اصرار کیا جاتا ہے، یوں معاملہ دل چرانے والی کو اپنے گھر لے جانے تک پہنچ جاتا ہے۔ یعنی جو بات چوری سے شروع ہوئی تھی وہ پوری سینہ زوری کے ساتھ اغواء برائے تاوان کی واردات بن جاتی ہے، جس میں اغواء کنندہ مغوی کے گھر میں رہتے ہوئے ساری عمر تاوان وصول کرتی ہے۔
اب آپ ہی بتائیے، دل کی چوری جیسے سنگین جُرم کی ’’رَپٹ‘‘ درج ہونی چاہیے یا نہیں؟
تاہم جہاں تک دل پھینک حضرات کا تعلق ہے وہ دل کھوجانے کی شکایت تو درج کراسکتے ہیں چوری کی نہیں۔ اگر پتا بھی ہو کہ گائے کی اوجھڑی کی طرح سینے سے نکال کر پھینکا گیا دل کس نے اٹھایا ہے، تب بھی اسے جُرم قرار دیا جاسکتا ہے نہ برآمدگی کا مطالبہ ممکن ہے، دل اٹھانے والا تو صاف کہہ دے گا ’’ہم نے تو اللہ کی زمین سے پایا ہے، یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ دل آپ کا ہے، کیا اس پر چیسز نمبر درج ہے؟‘‘
الزام کے جواب میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے ’’ہم نے ایک عدد دل بقرعید کی آلائش سمجھ کر اٹھایا تھا، جو میونسپلٹی کی کوڑا گاڑی کے حوالے کردیا۔‘‘ لو جی، کرلو جو کرنا۔ مرزاغالب کو بھی ایسے ہی ذہین محبوب کا سامنا تھا، چناں چہ فرماتے ہیں،’’کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا۔‘‘ غالب سے ان کے محبوب نے کہا ہوگا،’’حضرت! اپنا دل سینے میں سنبھال کر رکھیے، اگر کہیں گرگراگیا اور ہمیں مل گیا تو ہم اس کا سالن پکالیں گے یا میڈیکل کالج کے کسی طالب علم کو تجربے کے لیے دے دیں گے، پھر ہم پر چوری کا الزام مت لگائیے گا، نہ روتے رہیے گا کہ۔۔۔۔نہ جانے کہاں دل کھوگیا، بتائے دیتے ہیں۔‘‘ اس انتباہ کے باوجود ہوا یہ کہ:
غنچہ پھر لگا کِھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گُم کیا ہوا پایا
اب نہ جانے غالب نے اپنا گم کردہ دل ہانڈی میں پڑا پایا یا کسی طب کے طالب علم کی میز پر دھرا پایا، مگر ان کے بہ قول نتیجہ یہ نکلا کہ:
عرضِ نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
ناگ پور کے نوجوان اور ماضی کے عاشق اسداللہ خاں کی داستان سے کُل ملا کے یہ سبق ملتا ہے کہ دل نہ چوری ہونے دیا جائے نہ بال اور ناخن سمجھ کر پھینکا جائے، بہت سنبھال کر رکھا جائے، اور آنکھوں کی ہر واردات کے بعد سینے پر ہاتھ رکھ کر چیک کرلیا جائے کہ ہے کہ نہیں ہے۔
ماخذ