یاسر شاہ بھائی، استادِ محترم کی کی گئی اصلاح کو سمجھ کر جو تبدیلیاں کی ہیں آپ ایک نظر ان کو دیکھ لیجئے ۔ شکریہ
السلام علیکم
صابرہ بہن ابتدائی کچھ اشعار پہ متبادل دے رہا ہوں مقصود آپ کو غزل لکھ کے دینا نہیں اسے محض امکانات تلاش کرنے کی ایک مشق سمجھیے اور ایک ادبی فضا کے قیام کی کوشش ۔
ہم نے تین اشعار لکھے تھے ۔ دو تو اوپر ہو چکے جبکہ تیسرا یہ تھا
دل کا دروازہ وا کرے کوئ
مجھ میں آکر رہا کرے کوئی
ان گنت در ہیں، وا کرے کوئی
دل میں آ کر رہا کرے کوئی
اب دونوں ہی ٹھیک معلوم ہو رہے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق دل وہ گھر ہے جس کا دروازہ خود صاحب خانہ اندر سے کھول سکتا ہے باہر سے کوئی لاکھ کوشش کرے بے سود ہے۔ہاں دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے ۔ایک متبادل دیکھیں:
جب در _دل نہ وا کرے کوئی
خاک دل میں رہا کرے کوئی
"خاک " سے نفی بھی ہو گئی دل میں رہنے کی۔ایک نکتہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ جس دل میں انسان نہیں وہاں خاک اڑا کرتی ہے ۔
دل شکستہ ہے، بے قرار ہوں میں
میرے حق میں دعا کرے کوئی
دل شکستہ
ہوں بے قرار ہوں میں
میرے حق میں دعا کرے کوئی
اس غزلیہ اسلوب پہ میر کا شعر یاد آگیا:
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے
دعا لیتے ہیں
چاہتا ہے وہ سب اسے چاہیں
اور نہ چاہے تو کیا کرے کوئی
یا
چاہتا ہے جو، سب اسے چاہیں
اور نہ چاہے تو کیا کرے کوئی
سب کو چاہے جو سب اسے چاہیں
جو نہ چاہے تو کیا کرے کوئی
داستاں عشق کی رقم ہو گی
ہائے ہم سے وفا کرے کوئی
داستاں عشق کی رقم ہو جائے
کاش ہم سے وفا کرے کوئی
مصرع اول میں "ہو جائے" بھی اس وزن میں درست ہے۔