دل کا موسم بہت سہانا ہے - طرحی غزل اصلاح کے لئے

9.پتّے کرنوں سے جس طرح کھیلیں
تیرے بندوں کا جھلملانا ہے
یہ بُندے ہیں تو پیش کی علامت لگا دیجئے، قاری کو امتحان میں نہ ڈالئے۔
کھیلیں کی بجائے کسی طور الفاظ کو ہلا جلا کر کھیلنا لائیے۔ کامیابی سے آ جاتا ہے تو شعر کا لطف دیکھئے گا۔
 
عزیزم ادب دوست، کاشف کی مراد ’بُندوں‘ سے ہے ’بَندوںُ سے نہیں۔
ویسے پر شعر میں تقریباً کچھ نہ کچھ کمی ہے۔ اس لئے میں نے دوستوں کی غلطی کی ہی نشان دہی کی۔ اور یہاں بھی وہی کر رہا ہوں۔
کاشف ایک بار خود غورسے دیکھیں تو ان کو بھی کچھ کمی کا احساس ہو سکتا ہے کہ بات اتنی واضح نہیں ہو سکی ہے۔
زہر بجھانا سے مراد اسے نیوٹرل کرنا اس وقت ممکن ہے جب کہ اس وضاحت کے لئے خود موجود ہوں!!! عموماً محاوہ زہر میں بجھاناہی ہوتا ہے۔
استادِ محترم، اعراب نہیں تھے اس لیے مجھ سے سمجھنے میں غلطی ہوئی، معذرت -
ویسے استادِ گرامی :act-up::) میں" بَندوں" پڑھ کر شعر کو تصوّف کی طرف لے گیا تھا :jokingly:
 
10۔ جادوئے حسن ناز کی ضو سے
چاند کو زرد رخ دکھانا ہے

معذرت خواہ ہوں، یہاں بھی الفاظ ضائع کر دیے۔ حسنِ ناز، جادوئے حسن، حسن کی ضو ۔۔ اتنی چھوٹی بحر میں تو الفاظ کو "کنجوسی" سے برتنا ہوتا ہے۔
زرد رُخ یا زرد رُو؟ ۔۔۔ دکھانا کیا ہوا؟ ظاہر کرنا؟ ۔۔۔۔ شعر نہیں بنا بھائی۔ کلامِ منظوم اور چیز ہے شعر اور چیز ہے۔
 
ایک لفظ کے کئی کئی معانی بھی ہو سکتے ہیں، اب اُن میں سے شاعر کون سے معانی لیتا ہے، یہ ہے بنیادی اختیار بھی اور سوال بھی۔ معانی آپ جو بھی منتخب کریں، سیاق و سباق میں اس کا میلان اور اشارہ کسی نہ کسی صورت میں ہونا چاہئے۔
۔2۔
اس سے بھی اہم بات! ایک چیز ہے لفظ سے خیال اخذ کرنا اور پھر اس کو آگے چلانا، دوسری ہے مضمون کو اولیت دے کر اُس کے لئے لفظ لانا۔ ان دونوں میں توازن بہت ضروری ہے۔ الفاظ کے بغیر بھی بات نہیں بنتی اور محض الفاظ سے بھی بات نہیں بنتی۔ شعر بناؤ بگاڑ کے چکر میں پڑ گیا تو شعر نہ رہا، اس پر کیا بحث اور کیا رائے!
۔3۔
علامات، رعایات، مراعات النظیر، اشارات، استعارات ۔۔۔ یا جو بھی نام ان کو دے لیجئے۔ ان میں ایک چیز مشترک ہونی چاہئے اور وہ ہے معنوی فضا یا ماحول۔ آشیاں، گھونسلا؛ یہ گھر کی علامت ہے۔ مگر میں بغیر کوئی معنوی سیاق و سباق بنائے اگر اپنی بیوی کا کہوں کہ وہ گھونسلے میں خوش رہتی ہے تو قاری مجھ پر ہنسے گا۔ مجھے علامتی طور پر اس کو اور کچھ نہ سہی چڑیا کہنا پڑے گا۔
۔4۔
آپ کا قاری بھی لفظ کو میڈیم کے طور پر لیتا ہے، لفظوں کا حسن و قبح آپ کے شعر پر اثرانداز ہوتا ہے، پکی بات! مگر اصل چیز جو آپ کو اپنے قاری تک پہنچانی ہے وہ محسوسات ہیں نہ کہ لفظ۔ محسوسات اگر لفاظی کے بوجھ میں دب گئے تو آپ نے قاری کو کچھ بھی نہیں دیا۔ وہ آپ کی لفظیات کو کیا کرے گا۔
۔5۔
بہ این ہمہ کچھ شعر ہوتے ہیں جنہیں زبان کے شعر کہا جاتا ہے۔ وہاں الفاظ سے معانی لے کر ان کا ایک تانا بانا بناتے ہیں اور اس کو کسی احساس کے گرد بُن دیتے ہیں۔ مگر یہ ایک مشکل کام ہے، اور اس میں کامیابی ہو جائے تو پھر شعر ماسٹر پیس بن جاتا ہے۔

جناب استادِ محترم میں نے اس معلوماتی تبصرہ کو "زبردست" کا ٹیگ لگایا ہے - مجبوری تھی کہ ایک ہی ٹیگ لگایا جا سکتا ہے - اب تبصرہ معلوماتی بھی تھا اور زبردست بھی (کم از کم دو یا تین ٹیگ لگانے کی اجازت ہونی چاہیے)
 
آخری تدوین:
11- جلترنگ سی یہ دھن جو پھوٹے ہے
تیرا خوش ہو کے کھلکھلانا ہے

وہی سلسلہ "پھوٹے ہے" یہ اسلوب اس پوری غزل میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ لفظیات کا اپنا ایک ماحول ہوتا ہے۔ ترنگ اور دھُن ایک ہی بات نہیں کیا؟ ترنگ میں نون غنہ نہیں ہے۔
ع: دل میں اٹھی نئی ترنگ، ناچے مورا انگ انگ، من چاہے اُڑ جاؤں، کسی کے ہاتھ نہ آؤں ۔۔۔۔
خوشی سے کھلنا ہوتا ہے؛ کھکھلانا ؟ کھِلکھِلانا ! ۔۔۔ چلئے مختصر کر لیجئے: کھِلکھِلانا میں خوشی از خود شامل ہے۔ "خوش ہو کے" کی ضرورت نہیں تھی۔
 
12- ہجر میں یاد بے وفا کاشف
زہر اب زہر سے بجھانا ہے
یا پھر
زہر کو زہر سے بجھانا ہے

یاد کو زہر سے استعارہ کرنا، مجھے تو اچھا نہیں لگا۔ بجھانا پر سیانے لوگ بہت کچھ کہہ چکے۔ آگ بجھانا، زہر میں بجھانا؛ معروف ہیں۔ اور ایسے الفاظ جو ایک سے زیادہ محاوروں کی طرف اشارہ کر رہے ہوں وہاں اختصار سے ابہام پیدا ہوتا ہے۔
 
بیلے کی ے گر گئی، بیل رہ گئی۔ یہ بیل ہی لکھا ہوتا تو جوہی کی بیل عمدہ ترکیب نکل آتی۔ ویسے مجھے نہیں پتہ کہ جوہی کی بیل ہوتی ہے یا جھاڑی۔
جھرنا تو پانی کا ہوتا ہے۔ پھول کا جھرنا بنانے پر تو بہت جان مارنی پڑے گی۔
کسمسانا ۔۔۔ اردو کا مصدر ہے۔ الف آئے گا، نہ کہ ہ ۔۔۔ اس مصرعے کو رواں کیا جا سکتا تھا: اس کا سوتے میں کسمسانا ہے
ع: شاعری خونِ جگر مانگتی ہے
لفظوں کے ساتھ جبر نہ کیا کریں، یہ آپ کا قاری پر جبر ہو گا۔
میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ یہاں اردو محفل میں شامل ہوں- اس قدر معلوماتی اور اعلیٰ گفتگو میری خوش قسمتی ہے -
 
جہاں الفاظ کی بچت کرنی چاہئے تھی، وہاں الفاظ کو بے دریغ ضائع کر دیا، اور جہاں الفاظ کی ضرورت تھی، وہاں بے جواز کفایت کی گئی۔ توازن پیدا کیجئے۔

آخری جسارت ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ
ع: میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند (اقبال)
 
وہی سلسلہ "پھوٹے ہے" یہ اسلوب اس پوری غزل میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ لفظیات کا اپنا ایک ماحول ہوتا ہے۔ ترنگ اور دھُن ایک ہی بات نہیں کیا؟ ترنگ میں نون غنہ نہیں ہے۔
ع: دل میں اٹھی نئی ترنگ، ناچے مورا انگ انگ، من چاہے اُڑ جاؤں، کسی کے ہاتھ نہ آؤں ۔۔۔۔
خوشی سے کھلنا ہوتا ہے؛ کھکھلانا ؟ کھِلکھِلانا ! ۔۔۔ چلئے مختصر کر لیجئے: کھِلکھِلانا میں خوشی از خود شامل ہے۔ "خوش ہو کے" کی ضرورت نہیں تھی۔
اعلیٰ، استادِ محترم آپ کی تنقید و تبصرہ سے اتناکچھ سیکھنے کو ملتا ہے کہ بیان نہیں کیا جا سکتا-
 
زہر بجھانا سے مراد اسے نیوٹرل کرنا اس وقت ممکن ہے جب کہ اس وضاحت کے لئے خود موجود ہوں!!! عموماً محاوہ زہر میں بجھاناہی ہوتا ہے۔

ع: میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند (اقبال)

آپ حضرات سے ہمیشہ سیکھنے اور علم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہے اللہ آپ حضرات کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے - آمین
 
مزے کی بات ۔۔ میں اپنی کتاب کا ٹائٹل بنانے چلا تھا۔ انٹرنیٹ چلا تو میں یہاں چلا آیا۔
کاشف اسرار صاحب، ناراض مت ہوجیے گا۔
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
استاد محترم کیا بات کرتے ہیں۔
ع۔ "یہ تاب یہ مجال یہ جراءت کہاں مجھے"
آپ اور عبید سر جب اصلاح دیتے ہیں تو اپنا ذہن، علم اور دل سب نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ انٹرنٹ پر معدودے چند لوگ ہیں جو اتنے خلوص و محبت سے اصلاح دیتے ہیں۔ اتنا وقت دیتے ہیں۔ میں دل سے اللہ کا شکر ادا کرتا ھوں جب آپ دونوں میں سے کسی کا بھی جواب اپنے دھاگے میں پاتا ھوں کیونکہ معلوم ہے کہ ایک نیا سبق، علم کے نئے باب کا تحفہ میرا منتظر ہے۔ قدرت نے مجھے کچھ نیا سیکھنے کا ایک موقع پھر بخشا ہے۔ یہ احساس کتنا فرحت بخش ہوتا ہے یہ میں ہی جانتا ہوں۔
اللہ آپ دونوں کو بہترین جزائے خیر سے نوازے۔ آپ کے تبصرے، مشورے اور اصلاح میرے لئے دولت سے کم نہیں ہیں۔
جزاک اللہ ۔
 
انشا اللہ درستگی کے بعد پھر حاضر ہوتا ہوں ۔

درست لفظ "درستی" ہے۔ :p
ان شاء اللہ ۔۔۔۔۔ اِن (اگر) شاء (چاہا) اللہ (اللہ نے)
انشا، انشاء (لکھنا، قائم کرنا) انشائیہ اسی سے ہے۔ اور انشاء اللہ خان انشا بھی، اور ابنِ انشا بھی۔
 
Top